Paradigm Shift
میرے خیال میں قران سے ھدایت کیلئے اسکو باربار پہلے سے آخر صفحہ تک پڑھنا چاھئے۔۔۔۔۔
یہ آیت صرف دنیا کی چیزوں کی حقیقت بیان کر رھی ھے۔۔۔۔۔
لیکن ایت یہ نہیں کہہ رھی کہ آپ دنیا کی زندگی بالکل ترک کر دیں۔۔۔
دنیا کی زندگی میں ایک مسلمان کے کیا فرائض ھیں اس پر قران پاک میں ھر معاملہ پر بہت احکامات دیئے گئے ھیں۔۔۔
مختصر طور پر ؛ انسان کو دنیا میں خلیفہ بنایا گیا ھے ۔۔۔
خلیفہ کا مطلب یہ ھے کہ انسان کو دنیا کی چیزوں پر بہت سا علم اور اس علم کی بدولت چیزوں کی ساخت اور استعمال میں تبدیلی کا اختیار دیا گیا ھے۔۔۔
انسان دنیا میں اپنے علم کے اضافہ سے اپنے اس اختیار اور اسکی بدولت حاصل ھونی والی طاقت میں اضافہ کرتا جاتا ھے۔۔۔۔
کوئی اس علم و طاقت کو اصلاح کیلئے استعمال کرتا ھے اور کوئی تباھی کیلئے۔۔۔
اللہ کی طرف سے ڈیمانڈ یہ ھے کہ ایمان لاو اور نیک عمل کرو ۔۔۔ اور فساد مت پھیلاو۔۔۔۔
یعنی دنیا کی اصلاح کرو۔۔۔۔۔۔اور یہ سب کچھ اپنے رب کی خاطر کرو ۔۔نہ کہ دنیا میں شہرت یا دولت کی خاطر۔۔۔۔۔یہی خلیفہ ھونے کا مطلب ھے کہ اللہ کی زمین پر اصلاح کرو اور فتنہ و فساد مت پھیلاو
اج کے مسلمان کو اپنے اندر paradigm shift لانی ھو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اپنے ایمان کی پختگی اور نیک اعمال سے دنیا میں اپنے مقام کو اسلئے کیلئے بہتر کرنا ھو گا کہ وہ دنیا کی اصلاح کر سکے ۔۔۔۔
مثلا اج دنیا کو کیا مسائل درپشں ھیں جن سے انسانوں کی جانوں کو خطرہ ھے؛ پالوشن۔ خوراک کی قلت۔ پاپولیشن کا بڑھنا۔ صاف پانی کی قلت۔ ناانصافی۔ مختلف بیماریوں کے علاج کا نہ ھونا۔ ظلم و بربریت ۔۔ اخلاقی برائیاں۔۔ بھوک ۔ افلاس ۔ ناحق جنگیں۔ ناحق قبضے۔ ناحق قتل و غارت۔ ملاوٹ۔ غریب کا استحصال۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
اج کے مسلمان کو اپنے دنیاوی علم میں بھرپور انداز میں اضافہ کرنا چاھئے تاکہ وہ اس علم کی بنیاد پر دنیا کی اپنے فیلڈ میں اصلاح کی ذمہ داری پوری دیانت داری سے اللہ کی خاطر ادا کر سکے ۔۔۔۔
یہ صرف اس وقت ممکن ھے جب مسلمان قران کے پیغام کو پوری طرح سمجھے گا اور اس بات کو سمجھے گا کہ اسکو خلیفہ بنانے کا ایک بڑا مقصد فی سبیل اللہ دنیا کی اصلاح کرنا ھے اور یہ کام دنیاوی علم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ۔۔۔۔۔ اسلئے دنیاوی علم کا حصول اور اسں میں بھرپور ترقی اسکی اصلاح کیلئے بہت ضروری ھے۔
دنیاوی علم کا حصول اور اسں میں بھرپور ترقی انسان کی اصلاح کیلئے بہت ضروری ھے۔
Paradigm shift یہ ھے کہ مسلمان یہ کام اللہ کی خاطر کرے نہ کہ آسائشوں کے ہوس میں۔۔۔۔
اللہ کی خاطر کرنے سے دنیا اور اخرت دونوں میں بھی اچھا رزق و مقام ملے گا۔
یاد کریں قران کی وہ ایات جو انسان کی پیدائش کے دور میں خدا، فرشتوں اور شیطان کے درمیان مکالمہ پر موجود ھیں ۔۔۔
مفہوم اور میری سمجھ کے مطابق تشریح :
- خداندوں سے کہتا ھے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ھوں۔۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ کہ “خلیفہ ” یعنی ایک مخلوق جو choice کرنے میں بااختیار ھے۔
- فرشتے کہتے ھیں کہ یہ انسان تو زمین میں فساد پھیلائے گا ۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ کہ یہ خلافت کے اختیارات کا غلط استعمال کرے گا۔۔
- اللہ اسکا جواب اس صورت میں کہ دیتا ھے کہ ادم علیہ السلام کو چیزوں کے نام سیکھا دیتا ھے۔۔۔۔۔۔
مطلب یہ کہ اپنی طرف سے دنیا اور کائنات کی چیزوں کا علم انسان کو دیتا جو فرشتوں کو نہیں معلوم ھوتا۔۔۔۔۔۔گہرا مطلب یہ کہ اللہ فرشتوں کے فساد پھیلنے کے ڈر کا جواب یہ دے رھا ھے کہ اس نے انسان کو اپنے اس علم تک رسائی دے دی جس کے ذریعے انسان دنیا میں فساد کا سدباب کر سکے گا اور اسکی اصلاح کر سکے گا ۔۔۔
- 4۔اب شیطان حضرت ادم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرکے باغی ھو جاتا ھے۔۔۔ اور کہتا ھے کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا تاکہ انسان دنیا میں فساد برپا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب شیطان کے پیچھے لگنے والا اسی خلافت کے اختیار اور علم کا غلط استعمال کرے گا ۔۔
یعنی دنیا میں ھیمشہ سے دو طرح کے انسان شروع سے پائے جاتے ھیں۔۔۔ ایک وہ جو اپنے اختیار و علم کا استعمال فساد کیلئے کرتے ھیں ۔۔۔
دوسرے وہ جو اس کے ذریعے اصلاح کیلئے کرتے ھیں۔۔۔
کبھی فساد والا گروہ غالب ا جاتا ھے اور کبھی اصلاح والا۔۔۔۔۔۔
اور غلبہ وہ گروہ پاتا ھے جو یا تو تعداد میں دوسرے سے بڑھ جاتا ھے یا پھر علم میں۔۔۔۔یا پھر دونوں میں۔۔۔۔
علم کو تعداد پر فضیلت اور غلبہ حاصل ھے۔۔۔۔۔۔