اک عمر پڑی ھے
اک عمر پڑی ھے
فیض احمد فیض
اِس وقت تو یوں لگتا ہے کہیی کچھ بھی نہیں ہے،
مہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا، نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں میی کِسی حسن کی چلمن،
اور دِل کی پناہوں میں کِسی درد کا ڈیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید،
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اب بیر، نہ الفت، نہ کوئ ربط نہ رشتہ،
اپنا کوئ تیرا، نہ پرایا کوئی میرا،
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت گھڑی ہے
لیکن مرے دل، یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے،
ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے