عورت کی گواہی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ …
اے ایمان والو! جب تم کسی وقت مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والے انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو اللہ نے سکھایا ہے سو اسے چاہیے کہ لکھ دے اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور اللّہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہو تاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے
مسائل جن میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہے: وہ مسائل جن سے مرد آگاہ نہیں ہو سکتے ان میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہوگی چاہے گواہی دینے والی ایک ہی عورت ہو
عورت کی گواھی آدھی نہیں۔
ایٓت صرف تجارت کے معاملے میں دو عورتوں کو گواہ بنانے کا ذکر کرتی ھے۔ اور شرط یہ رکھتی ھے کہ اگر پہلی بھول جائے تو دوسری اسکو یاد دلا دے۔۔۔۔
:چلیں اس کا حقیقی دنیا میں نافذ ھونا اس مثال سے دیکھتے ھیں
چوھدری صاحب نے عمر سے پیسے ادھار لیئے اور جواد کو گواہ بنایا۔ اب دوسرا مرد گواہ اس موقعہ پر موجود نہ تھا۔ تو چوھدری صاحب نے ملامتی اپی اور درود والی اپی جو اس موقعہ پر موجود تھیں کو گواہ بنا لیا۔
اب چوھدری صاحب پیسے لے کر مکر گئے ۔۔۔
تو عمر جواد کے پاس گیا اور اسنے گواھی دی کہ چوھدری صاحب واقعی پیسے لے لیے تھے۔ یہ ھوئی ایک گواھی۔
اب عمر ملامتی اپی کے پاس گیا۔ تو دو صورتحال واقعہ ھو سکتی ھیں
1۔ ملامتی اپی کو یاد تھا اور انھوں نے گواھی دے دی کہ واقعی ھی ادھار لیا تھا۔ اور اس صورت میں انکی گواھی پکی اور پوری ھے۔ عمر کو درود والی اپی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ۔ یعنی عورت کی گواھی ادھی نہیں ھوئی۔
2۔ ملامتی اپی امریکہ میں اپنی زندگی کی آسائش میں اتنا کھو گئیں کہ انکو یاد ھی نہ رھا۔ تو عمر درود والی اپی سے رجوع کرتا ھے اور انکو یاد ھوتا ھے۔ وہ ملامتی اپی کو یاد کرا دیتی ھیں ۔
اب اگر ملامتی اپی کو یاد ا گیا تو اب ٹوٹل تین گواہ ھو گئے۔
اگر ملامتئ اپی تو یاد نہ ایا تو درود والی اپی کی گواھی مکمل دوسری گواھی ھو گئی۔
:اس مثال سے جو بات سمجھ لگتی ھے وہ یہ ھے کہ
عورت کی گواھی ایک مکمل گواھی ھے۔ اور دوسری عورت کو یاددھانی کیلئے معاملہ میں شامل کرنا صرف یاد دھانی کیلئے ھے یا پہلی عورت کے بھول جانے کے ڈر سے ھے کیونکہ پہلے زمانے میں اور اب بھی اکثر عورتیں تجارت کا لین دین نہیں کرتیں اسلئے بھول جانے کا چانس ھو سکتا ھے۔
اس تجارتی معاملے کی ایت سے عورت کی ادھی گواھی کا نتجہ اخذ کرنا ناقابل بعید ھے اور اس ایت کا اطلاق کہ قتل اور جرائم کے معاملات میں نہیں ھوتا ۔۔
یعنی دوسری عورت سے گواھی کیلئے صرف اس صورت میں رجوع کیا جائے گا جب پہلی عورت بھول جائے ورنہ نہیں
Very logical as always
Have you ever thought about writing your book to clear these misunderstandings if not the whole tafseer for a common Person.
پچھلے دنوں اپنے خالو کو جو قران پاک کا ترجمہ بڑے شوق سے پڑھتے مگر یقین صرف اسکی تفاسیر پر کرتے ھیں کو کہہ بیٹھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی واپسی کا قران پاک میں کوئی ذکر نہیں بلکہ یہ ھماری اختراع ھے۔۔۔ وہ انتہائئ ناراض ھو گئے اور کہنے لگے کہ یہ ھمارے ایمان کا حصہ ھے۔
اسطرح وہ ملا کی طرح یقین رکھتے ھیں کہ موجودہ دور کے تمام غیر مسلم جہنمی ھیں۔ میں نے کہا کہ ایسا تو کہیں قران میں نہیں لکھا۔ بلکہ جنت جہنم کا فیصلہ کرنا ھمارا اختیار نہیں ۔۔۔تو بہت ھی زیادہ خفا ھو گئے۔۔کہنے لگے کہ میں گوروں کے ملک میں دین سے ھٹ گیا ھوں ۔۔۔
اب جن لوگوں کو بچپن سے یہ ملا کی تفسیریں اور عقائد ذھنوں میں بار بار ڈال کر مضبوط کر دئے جاتے ھیں تو جب تک وہ خود سے اپنے عقائد پر سوال نہ کریں تو کیسے تبدیلی لائیں گئے ۔
Ye bat aap ki theek he, laikin aise log aap ke kam main rakawat nahi hona chahiyain. Aap apna kam kerte rahain aur start hi main ikhtalafi mozoo per bat na kerain. Baqi Allah aap ke liye asani kare
حقیقت روایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھو گئی
بُجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال
پھر ھر قوم یہ سوچتی ھے کہ وہ ھی خدا کی پسند کی قوم ھے۔ مسلم، عیسائی یہودی وغیرہ سب یہی سوچتے ھیں ۔۔
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ خدا کیا سوچتا ھے ؟
قران بار بار پڑھیں تو پتہ لگتا ھے کہ خدا کا مقصد صرف سب کا انفرادی اور پھر اجتماعی طور پر امتخان لینا ھے۔۔
مثلا عیسائوں اور یہودیوں کی کتابوں میں اخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ایا ۔۔۔ دونوں قومیں یہی سوچتی رھیں کہ اخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم انکی قوم پر نازل ھوں گئے ۔۔۔ مگر وہ ایک دوسری قوم پر ائے۔۔۔ اسطرح اللہ نے انکے عقائد کی بنیاد پر دونوں اھل کتاب کو ازمائش میں ڈال دیا۔۔۔ اب وہ اخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اسی صورت میں لا سکتے ھیں جب وہ اپنے ملا کے عقائد سے بالا تر ھو کر عقل کا استعمال کریں اور دین اسلام کو پڑھیں۔۔۔
اسطرح قران میں فرمایا کہ اگر ھم ان پر فرشتہ اتراتے تو انسانی شکل میں اتارتے تاکہ وہ ایسی شک (ازمائش) میں پڑ جاتے جس میں پڑے ھوئے ھیں ۔۔۔
خدا کا مقصد دنیا میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی لیول پر ازمائش کرنا ھے۔۔۔۔یہ قدم قدم پر کی جاتئ ھے اور اس ازمائش میں پورا اترنے کیلئے عقل کے استعمال سے بڑھ کر کوئی اور ھتیھار خدا کی طرف سے فراھم نہیں کیا گیا۔ یہ حقیقت میں عقل کے استعمال کی آزمائش ھے۔ اگر عقل نہ ھوتی تو ھم سب جانور ھوتے شاید چمپنزی کی ایک اور قسم ۔۔۔
اگر کبھی امام مہدی یا حضرت عیسی علیہ السلام ائے جیسا ملا یقین کرتے ھیں تو کیا پتہ وہ کیسی غیر مسلم قوم پر ائیں ۔۔۔۔
یہ تو خدا کی مرضی ھے کہ وہ جو مرضی کرئے ۔ اس نے تھوڑا کسی ملا تو جواب دینا ھے۔ وہ جو چاھئے کر سکتا ھے۔
Exactly…روایات کو چھوڑ کر مسائل پر توجہ دینی چاھئے
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف ھسٹری پڑھ لیں۔۔۔
ان سے بڑی کوئی اور ھستی تو خدا کے بعد نہیں ھے۔۔۔ اس پر تو ھم سب ایمان رکھتے ھیں ۔۔۔
انکی اپنی کتنی ازمائش کی گئی ۔۔۔
کبھی صبر کی ازمائش کبھی شکر کی اور اتنی ساری سختیاں اور تکالیف ۔۔۔۔
پھر جا کر زندگی کے اخری ایام میں مکمل کامیابی ملی۔۔۔
جب رسول کی آزمائش بھی کی جاتی ھے تو باقی تو عام انسان ھیں ۔
کیا خدا اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ پلک چھپکنے میں سب کو اعلی درجے کا مسلمان کر دے یا رسولوں کو ایک لمحہ میں کامیابی عطا کر دے ۔۔۔
مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔۔۔ کیونکہ انسان کو بنانے کا مقصد اسکی دئیے گئی عقل کی آزمائش ھے۔ نفس یعنی desires کی ازمائش ھے۔۔۔
انسان کے اندر desires یعنی نفس پیدا کیا گیا ۔۔۔ پھر اسکو analysis کرنے کیلئے عقل دی گئی تاکہ وہ اسکے استعمال سے choice کر سکے اچھی یا بری خواھش کے درمیان ۔۔۔