سورہ المعارج
مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، جو ضرور واقع ہونے والا ہے، کافروں کے لیے ہے، کوئ اسے دفع کرنے والا نہیں، اس خدا کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں کا مالک ہے۔ ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ پس اے نبی ، صبر کرو، شائستہ صبر۔
یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔ وہ عذاب اس روز ہو گا جس روز آسمان پگھلی ہوئ چاندی کی طرح ہو جائے گا اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہو جائیں گے۔ اور کوئ جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے
مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو،اپنی بیوی کو، اپنے بھائ کو،اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا، اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دیدے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے۔ ہر گز نہیں ۔ وہ تو بھڑکتی ہوئ آگ کی لپٹ ہو گی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی، پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا۔
انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے،جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ۔ مگر وہ لوگ اس عیب سے بچے ہوۓ ہیں جو نماز پڑھنے والے ہیں،جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں،جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے،جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں،جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئ بےخوف ہو،جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں،جو اپنی گواہیوں میں راست بازی پر قائم رہتے ہیں،اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے