شیروانی صاحب
سب کی خیر سب کا۔ بھلا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
ابھی آپی نے موت کا ایک روح پرور منظر کھینچا۔۔
اور عمر نے اپنی پیر بننے کی تصویر شیئر کی تو ۔۔۔
کچھ بھولی بھسری یادیں آ گئیں۔ ۔
ایک۔ نکا سا منا سا واقعہ۔ ۔
کہ کبھی ہم بھی پیر بنے تھے۔۔
کیا سرور تھا۔۔
کیا لطف تھا۔۔۔
بہت بہت بہت پہلے کی بات ہے
کہ ہم بھی چھوٹے ہوتے تھے۔۔۔
وہی کاغذ کی کشتی
بارش کا پانی والی نانی۔ ۔
تو یہ بات ہے اللہ بھلا کرے انہیں سنہرے دنوں کی۔ ۔
جب میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ ۔
طالب علم کچھ بھاری بھرکم سا لفظ ہے
پر ہمارے بستوں جتنا نہیں۔۔
تو جی ہمارے ایک استاد جی ہوتے تھے ۔۔۔
شیروانی صاحب۔۔
جی یہ ان کا نام تھا۔۔اور وہ اسم بامسمہ تھے۔۔۔
اس زمانے میں ہی وہ ماشاءاللہ اسی سال کے تو لگتے تھے۔۔
ویسے بچپن میں تو تیس سال کا بندہ بھی بوڑھا ہی لگتا ہے۔۔
خیر وہ تو تھے ہی بیچارے بہت کمزور سے۔۔
ان کے ذمہ تھا ہماری کلاس کو لائبریری لے کر جانا۔۔۔
اب لائیبریری لے کر جانے کی ان میں ہمت نا ہوتی تھی کہ کلاس میں آ کر دس منٹ تو کرسی پر ہانپتے رہتے تھے۔۔۔
لہذا اس پیریڈ میں سب کو جمہوری آزادی تھی
جو چاہے کرو۔۔۔
کلاس میں ایک طوفان بدتمیزی برپا رہتا تھا اور وہ کرسی پر بیٹھے اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف رہتے تھے۔۔
یعنی۔۔
پہلے تو جناح کیپ اتار کر میز پر رکھی۔۔
اور پھر پسینہ سے بھری چندیا پر ہآتھ پھیر کر اسے خوب سہلایا۔۔
اس سے جو پسینہ میسر آیا۔۔
وہ اپنی شہادت کی انگلی کے ذریعے ناک میں داخل کر کے ۔۔
ناک کے چوہوں کو خوب نرم وملائم کیا۔۔
اور پھر نہایت سہولت سے انھیں نکال کر میز کی نچلی جانب صفائ سے چپکا دیا۔۔
صفائ کے نہایت شوقین تھے۔۔
لہذا ناک کے بعد منہ پر توجہ دی جاتی ۔۔
اور اسی انگلی سے دانتوں کا خلال کیا جاتا تھا۔۔
میرا خیال ہے جو ان کے بچے کھچے دانتوں کی حالت تھی۔۔۔
تو جو کوئ ڈھیٹ چوہا بچ جاتا وہ بھی منہ میں جا کر انا للہ ہو جاتا ہو گا۔۔۔
یہ پسندیدہ فعل اس وقت دہرایا جاتا جب تک گھنٹی بج کر ان کے کام کا تسلسل نا توڑ دیتی۔۔۔
اس دوران بہت سارے چوہے شہید ہوتے۔۔
انھوں نے کلاس کو مصروف رکھنے کا ایک نیا طریقہ نکالا۔۔
کسی نا کسی کو ایک کہانی کی کتاب تھماتے اور حکم صادر ہوتا کہ ساری کلاس کو سنائ جاے۔۔
انہیں دنوں مجھے کچھ نیا نیا شوق لگا تھا کہ جی جو کوئ بھی کتاب نکڑ والی لائیبریری سے ملے ۔۔۔۔
وہ پڑھ لی جاے
ایسے ہی ایک دن
ایک بڑی بھاری بھرکم۔ ۔
موٹی تازی
پلی پلائ سی کتاب ملی۔۔۔
سانڈ جیسا حجم۔۔۔
نام تھا۔۔۔
موت کامنظر۔ ۔۔ ڈھیں ڈھیں ڈھے ڈے ( پس پردہ تجسسی موسیقی)
مرنے کے بعد کیا ہو گا۔ ۔(مزید ڈھیں ڈھیں ڈھے ڈے)
اب یہ تو سب کو پتہ ہے مرنے شرنے سے ڈر تو بڑوں کی بیماری ہے۔ ۔
بچوں میں اس کے جراثیم کیا کسی نے کبھی دیکھے؟
بلکہ ان میں تو تجسس ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ۔
کہ جیسے یہ موت ہوتی کیا ہے۔ ۔
اس کا راز۔ تو۔ معلوم کریں۔ ۔
اچھے بھلے بندے چپ چاپ کیوں ہو جاتے ہیں ۔۔
کیا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ۔
جب سب لوگ میت کے گرد رو رہے ہوتے ہیں۔۔
تو بچے اپنی بنٹے جیسی آنکھیں گھما گھما کر میت کو گھوریاں کروا رہے ہوتے ہیں۔۔۔
اللہ معاف کرے مرنے کے بعد جب لوگ میت کا چہرا دیکھنے کیلیے اس کے گرد چکر لگاتے تھے۔۔۔
تو میں کوی چار پانچ لگا لیتا تھا۔ ۔
کچھ پتہ تو لگے۔۔
کیا معلوم مردہ چپکے سے کچھ کان میں راز بتا ہی جاے کے باونڈری کی دوسری طرف کیا ہوتا ہے۔ ۔
لہذا جب موت کا منظر ملی تو تجسس دو چند ہوگیا۔۔
فورا سے بیشتر کتاب گھر میں تھی۔۔
ماں جی نے دیکھا تو کہنے لگیں ۔۔۔
نہ پڑھ۔۔
ڈر جاے گا۔۔۔
پر نا جی۔۔
فٹا فٹ کتاب کھولی اور ایک طلسم ہوشربا میں ڈوب گیا۔۔
ایسے ایسے قصے جو اب تو پوری طرح یاد نا رہے۔۔
بس کچھ دھندلی دھندلی یادیں ہیں۔۔
جیسے ۔۔
ایک بوڑھی کسی کے خواب میں آی کہ اپنی قبر میں بہت افسردہ بیٹھی ہے۔۔
کیونکہ اس کے بچے اسے درود اور صدقہ کے تحفے نہیں بھیجتے۔۔
تو کوئ آگ میں۔تڑپتا جاتا تھا۔۔۔
کوئ ناگوں سے ڈسا جا رہا تھا۔۔
مگر کسی کے صدقہ۔۔
کسی کے نفل۔۔
کسی کے قرآن۔پڑھنے کے سبب کچھ قرار میں آ گئے۔۔
اس طرح کے اور ان گنت واقعات۔۔
نتیجہ!!!!!!
اپنے دماغ میں شعلہ جوالہ سا آییڈیا آیا۔۔
جی چرایا کہ کیوں نا رات کو۔میں بھی قبرستان۔جاوں اور کسی بزرگ کی طرح رعب داب سے وہاں بیٹھوں۔۔
رات کو کوئ قبر والا اپنا دکھ درد میرے ساتھ شئیر کرے اور میں بڑے سٹائل سے اس کی مدد کر دوں۔۔۔
جیسے پہلے عرض کیا مرنے ورنے سے ڈر تو بچپن میں چھو کر بھی نا گزرا تھا۔۔
البتہ۔۔
بھئ یہ بھی سچ ہے کہ جن بابے بہت تراہ نکالتے تھے۔۔۔
لہذا حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے دوست کو یہ منصوبہ سنایا۔۔
اور دونوں نے طے کر لیا کہ مل کر رات کو قبرستان جائیں گے۔۔
سارا دن بڑا پر جوش گزرا۔۔
خوب منصوبہ بندی ہوئ۔۔۔
ادھر مغرب ہوئ دوڑا کہ خبیث تیرے انتظار میں سب غارت ہو گیا۔۔۔
بیچارا شریف بندہ تھا۔۔
بڑی معافی مانگی۔۔
میرے جیسا ہوتا تو کہہ دیتا کہ بھای تو میری طرف آ جائیں۔۔
خیر پھر خیال آیا کہ کہیں آج آ ہی۔نا جاے۔۔۔
لہذا معاف کیا اور پھر رات کا پروگرام بنا لیا۔۔
اس دفعہ ارادہ پکا تھا۔۔
لیکن دن دن میں۔۔
پھر ادھر مغرب ہوئ۔۔
پھر ادھر ڈھیر سارا تراہ نکل گیا۔۔۔
اوپر سے۔۔
اللہ ہوچھے۔۔
منحوس مارا دوست بھی آ گیا۔۔
میرا اپنا خیال ہے تراہ اس کا بھی نکلا ہوا تھا۔۔
لہذا دونوں ہی دیر تک منصوبہ کی نوک پلک ٹھیک کرتے رہے۔۔
یہاں تک کے عشاء ہو گئ۔۔
پھر سکول کی باتیں ۔۔
دوستوں کی غیبتیں وغیرہ وغیرہ میں تھک گئے۔۔
لہذا بڑے جوش سے اگلے دن کا پروگرام بنایا۔۔
اب کبھی ماں باپ کا ڈر کے پتہ نہیں کیا کہیں گے۔۔
کبھی پسندیدہ ڈرامہ چھوٹ جانے کا خوف۔۔
اور ایسے ہی فی البدیہ کسی نا کسی بہانے پر ہم متفق ہو جاتے اور منصوبہ وہیں کا وہیں رہ جاتا۔۔
کچھ عرصہ گزرا تو کتاب کا طلسم کچھ کم ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ جوش بھی۔۔
لہذا قبرستان والے منصوبہ کو تو اس وقت تک معطل کیا جب تک خود اپنا وقت نہیں آتا۔۔۔
پر دل میں ایک تڑپ تو تھی۔۔۔
کہ اس معلومات کے انمول خزانے کا کوئ اچھا مصرف تو کیا جاے۔۔۔
پر کیسے؟؟؟؟؟
آخر ایک کارآمد بات ذہن میں آ ہی گئ۔۔۔
وہ کیسے۔۔۔
وہ ایسے کے میں نے کلاس میں شیروانی صاحب سے عرض کی کہ جناب اگر اجازت ہو ۔۔۔
تو یہ بندہ نا چیز ایک پرسرار۔۔۔
مگر سحر انگیز اور سبق آموز باتیں ساری کلاس کو سنا سکتا ہے۔۔۔
ان کا کیا جاتا تھا۔۔ اجازت مل گئ۔۔
اب جناب میں کلاس کے سٹیج پر کھڑا ہوا اور دے دنا دن شروع ہو گیا۔۔۔
ایک کے بعد ایک دلچسپ واقعہ۔۔۔
کلاس کے گوش گزار کرنا شروع کر دیا۔۔۔
مرچ مثالہ ماشاءاللہ بچپن سے گھر کا ملازم تھا ۔۔۔
خوب لگایا۔خوب ڈرایا۔۔
پھر لگایا۔۔۔
اور جنت کہ مان لو کھلی آنکھوں سے ان کو سیر کرا دی۔۔۔
کبھی کبھی مولانا طارق جمیل جب قصے سناتے ہیں جنت کے تو اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔۔😏😏😏😏
ایسا سناٹا ہوتا تھا کہ بس یاں تو میں بول رہا ہوتا تھا۔۔
یا شیروانی صاحب بیچ بیچ میں خوفناک خراٹا لگا کر بتا دیتے تھے کہ زندہ ہوں۔۔۔
اب کتاب تھی بہت بڑی۔۔۔
ٹائم ہوتا کم۔۔۔
لڑکوں کی بیتابی کا اندازہ اس سے لگائیں ۔۔۔
کہ بیل بج جانے کے بعد اور اگلا ماسٹر آنے کے بعد بھی ان کا ھل من مزید کا تقاضا جاری رہتا۔۔
شیروانی صاحب بہت خوش کہ کلاس نے لائیبریری جانے کی ضد چھوڑ دی تھی اور ان کو کوئ تنگ نہیں کرتا تھا۔۔
کتاب جتنی بڑی تھی اس سے دگنے میرے مسالے ۔۔۔
لہذا کتاب کو ختم ہوتے ہوتے تقریبا مہینہ ایک تو لگ گیا۔۔۔
اس عرصے میں لوگ مجھے کوئ ولی سمجھنا شروع ہو گئے۔۔۔😇😇😇😇😇😇
ہر کوئ آ آ کر مجھ سے جنت کے سرٹیفیکیٹ مانگ رہا ہوتا تھا۔۔
یار میں نے کل انڈین مووی دیکھ لی میری معافی ہو جاے گی۔۔
میں بھی بے وقوفوں کی طرح ۔۔۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔
توبہ کرلے۔۔
کوئ مسئلہ ہی نہیں۔۔
سنا نہیں وہ قبر والا کتنا گناہگار تھا لیکن بچ گیا۔۔۔۔
اللہ میاں (اللہ کے ساتھ میاں لگانے گا بڑا ہی مزا آتا ہے۔۔میٹھا سا) بڑے مہربان۔۔
یہ تو کوئ گناہ ہی نہیں ان کے نزدیک۔۔۔
کانفیڈنس کی تو انتہا تھی نا۔۔۔
بلکہ ابل ابل کر باہر گرا پڑتا تھا۔۔۔۔
دوسرا لڑکا۔۔۔۔یار وہ کل میں امی سے لڑ پڑا۔۔۔
میری ہو جاے گی؟
یہ مشکل سوال تھا۔۔
یہاں معذرت کر لی گئ۔۔۔
اب تو جناب۔۔۔۔۔سارے کے سارے اس کو ایسی ترحم انگیز نظروں سے دیکھنے لگے کہ جہسے وہ واقعی ہی جہنم میں چلا گیا۔۔۔
ادھر اس کے بھی چھکے چھوڑیں۔۔ اٹھے۔۔دسے۔۔۔ گیارہویں چھوٹ گئے۔۔۔۔
پسینوں پسین۔۔۔
رون ہانکا ۔۔۔
سہما سہما پوچھ رہا کہ کیا کروں۔۔۔
میں بھی مایوسی سے سر ہلا رہا۔۔۔
پتا نہیں اس کو یہ ترکیب کس نے بتا دی تھی۔۔
وہ فٹا فٹ کینٹین گیا اور میرے لیے دو جوبلی چاکلیٹ لے آیا۔۔۔
ہاے ۔۔۔۔
کیا مزا ہوتا تھا کمبخت جوبلی کا۔۔۔
آج تک کسی چاکلیٹ میں نا ملا۔۔۔
دل تو پگھل سا گیا۔۔۔
موم کی مانند۔۔۔
میری اور سب کی رالیں بہہ بہہ کر وہاں سیلاب ہی آ گیا۔۔۔
فورا سوچ کے گھوڑے دوڑاے اور ایک ترکیب بتای کہ جا بچہ جا کر ماں سے معافی مانگ لے۔۔
اللہ۔کرم کر سُو۔۔۔
لو جی وہ بھی خوش ۔۔۔
میں تو بہت ہی زیادہ خوش۔۔۔
اور میرا خیال ہے اس کی امی بھی خوش۔۔۔
اب تو جناب یہ معمول بن گیا۔۔۔
غریب غربا ٹافیاں لاتے یا پراٹھے۔۔
ذرا امیر بسکٹ ۔۔۔۔
اور اس سے اوپر تو بوتل۔۔۔لڈو پیٹھی ۔۔۔چاکلیٹ اور مزے مزے کی چیزوں سے توازہ کرتے۔۔۔
کلاس کا مانیٹر میں پہلے ہی تھا۔۔
اب تو ان کا پیر بھی بن گیا۔۔۔
سب کو خوب معافی کے سرٹیفیکیٹ جاری ہوتے۔۔۔
وہ بھی بدتمیز اتنے فریبی تھے کہ ادھر کتاب ختم ہوئ۔۔
ادھر کچھ عرصے بعد انھوں نے سرٹیفیکیٹ کیلیے اپلای کرنا بند کر دیا۔۔۔
خیر جب تک توبہ (رشوت کھا کر ہی سہی) کروا سکتا تھا کروائ۔۔۔
کیونکہ۔ہم۔تو سادھو سنت لوگ ہیں
جو دے اس کا بھی بھلا
جو نا دے اس کا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلا
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا ۔۔
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا ۔۔
اللہ ہی اللہ کیا کرو۔۔ دکھ نا کسی کو دیا کرو۔۔۔
وہ جو سب کا مالک ہے۔۔ ۔۔نام اسی کا لیا کرو۔۔۔
اللہ ہی اللہ۔۔