الٹی ھو گئیں سب تدبیریں۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔
ایک خوبصورت سی دنیا تھی ۔۔
پی ایم سی۔۔
جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔۔
رعایا خوش تھی اور بادشاہ کی جے جے کرتی تھی۔۔
غرض ہر سو بہار ہی بہار تھی۔۔
پھر۔۔
جیسے کہانیوں میں ہوتا ہے۔۔
ایک ٹوئسٹ۔۔۔
فزیالوجی کا سرکولیشن کا رٹن امتحان ھوا اور خاکسار کا اس میں دوسرا نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سو میاں دے نعرے وج گئے۔۔
حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کی اور سب دوست یاروں کو خوشخبری سنائی کہ بس وائیوا ہونے دو ۔۔
بوتلیں پکی ۔۔
جناب ہنسی خوشی وائیوا دینے جا پہنچے۔۔
پر افسوس خوشیوں کو کسی ڈائن کی نظر لگ گئی۔۔
جیسے میاں کو عمران چمڑا۔۔
ہم لوگوں کو بلال صاب ٹکر گیے۔۔
پچھلی قسط میں کامی بیان کر چکا کہ بلال صاب کے ساتھ وہ کیا انتاکشری کھیل کر آیا تھا۔۔
اس کے بعد میں نے کمرے میں قدم رنجہ فرمایا۔۔
آپ سب کو پروفیسر دیور چیمہ یاد ہوں گے۔۔
وہی جو میڈم تسنیم کے دیور تھے اور ان کی مرسڈیز بھی چلاتے تھے۔۔
خیر امید تو یہ تھی کہ مجھے دیکھ کر بصد احترام بلال صاب اور دیور چیمہ صاب تعظیم کیلیے کھڑے ہو جائیں گے۔۔
لیکن وہاں تو سین ہی کچھ اور چل رہا تھا۔۔
دیور صاب ۔۔
بلال صاب کی دلجوئی کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔۔
کوئی نہیں ۔۔کوئی نہیں تسی چائے پیو۔۔
اور میں احمقوں کی طرح انھیں ناز اٹھاتے دیکھ رہا تھا۔۔
پہلا جملہ جو میرے گوش گزار ہوا۔۔
اب کیا آپ کو بیٹھنے کیلیے الگ سے دعوت دینی پڑے گی
اور جواب سنے بغیر ہی۔۔۔
تسی بسکٹ وی کھاو۔۔
(یہ بلال صاب کیلیے)ــ
تسی فکر نہ کرو ۔۔
میں وائیوا لیتا ہوں۔۔
اب یہ ذہن میں رہے کہ کمرے کا نقشہ کچھ یوں ہے۔۔
تین نفوس۔۔
دیور ۔۔
بلال اور
ملزم۔۔۔
ملزم بھی وہ جس کا پسندیدہ مشغلہ بحث کرنا۔۔۔
اب اس آنے والی گفتگو میں۔۔
وائیوا کوئسچن اور دلاسے۔۔دیور چیمہ صاب۔۔
کشمیر اور دوسرے طنز ۔۔۔ بلال صاب۔۔
اور گھگیانا ممیانا اور فضول بحث ملزم بقلم خود۔۔
تو جی کیمرہ آن ہوتا ہے۔۔۔
Define hemorrhage ..
تسی فکر نہ کرو۔۔
ایک شخص کا پہلو بدلنا اور ملزم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا۔۔
سر۔۔بلڈ لاس کو کہتے ہیں۔۔
بلال صاب: بس یہی پڑھا ہے۔۔۔
(دیور صاب: میں کرتا ہوں (کوڈ ورڈز میں۔۔ بے عزتی)
types؟
ملزم کا جواب: ایکیوٹ اور کرونک۔۔
تم لوگوں کی نالایقی کی وجہ سے پاکستان اس حال کو پہنچا ہے۔۔
پسینے شروع ملزم کو۔۔
تسی چا پیو سر۔۔
تو کون سی قسم اچھی ہے۔۔
سر ٹیکلنکلی تو لفظ اچھی کچھ درست نہیں۔۔ بلڈ لاس کچھ اچھی چیز نہیں۔۔
اچانک ایک دھاڑ۔۔
یہ مذاق ہے۔۔ کشمیر کے لوگوں سے اس پاکستان کی قیمت پوچھو۔۔۔
سر مییں سوال پوچھتا ہوں آپ چاے پیئں۔۔
کون سی قسم خطرناک ہے۔۔
ملزم بھی اپنے پیر پر دے دنا دن کلہاڑیاں ماری جاے۔۔
وہ۔۔ سسسسررررر۔ یہ منحصر ھے کہ کتنا خون کتنی رفتار سے نکلا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیور صاب: اگر اس الماری جتنا ہو۔۔
ملزم۔: سر اس بندے کے پاس اتنا خون آیا کہاں سے۔۔
بلال صاب۔: تم ادھر مذاق اڑانے آے ہو۔۔
ننننہیییں سسسسسرررر۔۔۔
اب اتنا خون تو ہاتھی میں ہی ہو گا۔۔
دیور صاب: ھاھاھا
well said
۔۔سر آپ اور چاے منگوائیں۔۔
خیر قصہ مختصر۔۔ ایک سوال ہوتا تھا۔۔۔
ایک بلال صاب کو تسلی دی جاتی تھی ۔۔
ایک ان کی طرف سے لفظوں کی چھترول ہوتی تھی۔۔
اور ایک گھگیا اور مِن مِن کر کے ملزم صفای پیش کرتا تھا۔۔
یوم حساب کا کچھ اندازہ ہوا۔۔
کشمیر اور پاکستان کی تاریخ سیکھی اور فیل ہونے کا کلنک ماتھے پر لگوا کر کمرہ بدر ہوا۔۔۔
شکر ہے یہ پراف نہیں تھا۔۔
یہ میرا بلال صاب سے پہلی ملاقات تھی۔۔
بس انھوں نے دیکھا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔۔
اک پروفیسر کالج لائف عذاب کر گیا۔۔۔
یہ علحدہ بات ہے کہ میری یہ خاندانی دشمنی تھرڈ ایر میں میرے کلاس فیلوز کے بہت کام آئی اور مجھے پر زور اصرار کر کے بلال صاب کے چھتر کھانے (لفظی) بلایا جاتا کہ باقی سب سے ان کی توجہ ہٹ جاتی اور توپوں کا رخ ما بدولت کی طرف ہوتا۔۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر میری شخصیت میں بھرا ہے ۔۔
لہذا ایک شانِ بے نیازی سے دوسروں کی خاطر تشریف لے جاتے تھے۔۔۔