Teamwork…
آج صبح پی ایم اور آپی کی بچوں کی تعلیم اور تربیت پر گفتگو کافی سارے سال ماضی میں لے گئی۔۔۔
اپنے سیدھے سادھے والدین اور اپنی چالبازیاں یاد آگئیں۔۔
مجھے سیدھی سی بات ہے پڑھنے لکھنے میں کوئی دلچسپی بچپن سے ہی نہیں تھی۔۔
میں ابھی نرسری میں تھا کہ میں نے اپنی کلاس میں ٹاپ کرنے والے لڑکے کے والدین کو پرسپل کو مٹھائی دیتے ہوے دیکھا۔۔
بھئی آخر ان کا بچہ فرسٹ آیا تھا۔۔
میری چوتھی پوزیشن تھی۔۔
میری امی کہنے لگیں۔۔
بیٹا اگلی دفعہ کوشش کر کے فرسٹ آنا۔۔
میرا دماغ ہی الٹا تھا۔۔
میں نے جواب دیا کہ جی میں تو جو کر سکتا تھا کر لیا۔۔۔
اب آپ بھی مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئیں تو کوئی بات بنے۔۔
سارا بوجھ مجھ پر۔۔
خیر یہ بات تو ایویں ہی بیچ میں آ گئی۔۔
پی ایم آج صبح کہہ رہی تھیں کہ انھیں بچوں پر پڑھائی کا بوجھ لادنا پسند نہیں۔۔۔
دل عش عش کر اٹھا۔۔
ویسے زیادہ فرمائش تو میرے ماں باپ بھی نہیں کرتے تھے بس اتنا تھا کہ ہوم ورک ضرور کر لینا۔۔
اب نگوڑ مارا سکول ہر روز ہوم ورک دینے سے باز ہی نہیں آتا تھا۔۔
اور وہ بھی ڈھیر سارا۔۔
ہر روز میڈم ڈائری میں چیک کر کے سائن کرتی تھی اور یہ ڈائری والدین کو کاونٹر سائن کرنی ہوتی تھی۔۔
میں ٹہرا اول درجہ کا کھلنڈرا۔۔۔
میرے لیے تو کھیل وکود اول
پڑھائی و لکھائی آخر۔۔
ادھر میرا بڑا بھائی بالکل ہی الٹ۔۔
آتے ساتھ ہی کتابیں۔پڑھائی اور ہوم ورک۔۔
میں کرکٹ۔ہاکی اور پتنگ بازی۔۔
ابو نے رات دس بجے جب سب مہمانوں اور کام سے فارغ ہونا تو بڑے بھائی نے کہنا جی سب مکمل
اور۔۔۔
میں نے کہنا جی بستہ ڈھونڈتا ہوں۔۔
بس جی بڑی گڑبڑ ہونی۔۔
خوب گرج چمک ہوتی۔۔
شکر ہے آپا دھاپی نہیں ہوتی تھی۔۔
آخر سوچا کہ اس کا کچھ جگاڑ لگانا چاہیے۔۔
تیسری جماعت میں ہوں گا کہ ایک طریقہ ڈھونڈا۔۔
پہلے تو چار پانچ لفنٹروں کا گینگ بنایا۔۔
گینگ کے ممبران نہایت رازداری سے اور پوری چھان بین کے بعد چنے گئے۔۔
جنھوں نے اپنے دور کا سب سے بڑا حلف اٹھایا تھا۔۔
یعنی گلے کو چٹکی سے پکڑ کر کہا تھا۔۔
اللہ میاں کا پکا وعدہ۔۔
کہ یہ راز سکول اور گھر میں کوئی نہ جان سکے گا۔۔
پلان یہ تھا کہ ہر ایک کو ایک ایک مضمون کی خطرناک ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔۔
روز کے حساب سے۔۔
خفیہ پلان یہ تھا کہ ہم ڈائری میں موٹے سکے والی پنسل سے ہوم ورک لکھیں گے اور جب میڈم سائن کر دے گی تو سواے اپنے حصے کا مضمون چھوڑ کر باقی کا حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جاے گا۔۔
میں سب کی اپنے مضمون والی کاپیاں گھر لے جاتا تھا۔
اور اسی طرح باقی سب بھی۔۔۔
اور رات کو چار یا پانچ ہوم ورک کرنے کی بجاے ایک دفعہ حساب برابر کیا جاتا تھا (ابا جی تو ہر روز امتحان ہی لینے بیٹھ جاتے تھے اور پانچ منٹ کا کام آدھے گھنٹے میں ہوتا تھا)۔۔
ہاں فائدہ یہ تھا کہ ادھے گھنٹہ بعد کاپی پیسٹ کرنے میں دس منٹ ہی لگتے تھے۔۔
اور ہر روز دو گھنٹہ کا کام آدھے گھنٹے میں مکمل ہو جاتا۔۔
ابو بڑے حیران تھے کہ یہ کیا نیا چکر ہے۔۔
ان کو بتایا کہ یہ نیا سسٹم ہے۔۔
ایک دن میں ایک ہوم ورک۔۔
کہتے تھے بڑے کو تو روز خوب ملتا ہے۔۔
میں نے کہا اس کو محنت کی ضرورت ہے شاید اس لیے۔۔
بیچارے اس بات پر ہی خوش تھے کہ اب زیادہ نگرانی نہیں کرنی پڑتی اور ان کی بھی جلدی جان چھٹ جاتی ہے۔۔
سب کی زندگی آسان سی ہو گئی تھی۔۔