تربیت
یہ بچیاں خانیوال اڈہ چھب کلاں کے غریب ہاری نصیر احمد کی بیٹیاں تھیں اور پورے خاندان کے ہمراہ بہاولنگر اور جنوبی پنجاب کی آخری تحصیل فورٹ عباس کے تپتے صحرا میں کھیتی باڑی اور مزدوری کرنے آئیں تھیں۔ پرسوں اپنی پھپھو کے گھر سے واپس اپنے ابا کے گھر کے لیے نکلیں مگر 45 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی اور 97 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ریت بھری تیز ہواؤں سے وہ راستہ بھٹک گئیں۔
نصیر احمد اور اس کی بیوی پاگلوں کی طرح چولستان میں اپنی تین بیٹیاں ڈھونڈتے رہے، مقامی لوگوں نے ان کی مدد کی کوشش کی، وہ دو دن تک ٹریکٹروں اور موٹرسائیکلوں پر بچیوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے. پولیس اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی گئی. کسی سرکاری افسر نے اس کیس کو سیریس نہیں لیا. اور آج تیسرے دن تینوں بہنوں کی لاشیں ملیں.
سرویا نو سال کی تھی، فاطمہ سات سال کی اور اللہ معافی صرف پانچ سال کی.. یہ تینوں بہنیں چولستان کی شدید گرمی میں بھوک اور پیاس سے اپنا گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندگی ہار گئیں، تینوں بہنوں نے مرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے. کوئی اور ملک ہوتا تو ان بچیوں کو ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوششیں کی جاتیں. ریسکیو مشن نکل پڑتے، ہیلی کاپٹروں میں بچیوں کو ڈھونڈا جاتا.. لیکن افسوس کہ یہ بچیاں پاکستان جیسے مردہ ملک میں پیدا ہوئیں. جن کے حکمران اپنے لیے اربوں روپے کے ہیلی کاپٹر خریدتے ہیں. جن کے حکمران پرائیویٹ جیٹ میں عمرے کرتے ہیں. جن کے حکمرانوں کا علاج لندن کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہو رہا ہے، جن کے حکمران ہر سال عید منانے انگلینڈ جاتے ہیں..
پانچ سال کی بچی صحرا میں بھوک پیاس اور گرمی سے مر جائے اور قوم چاند رات اور عید کی خوشیاں مناتی رہے، حکمران اٹھکھیلیاں کرتے رہیں تو پھر اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے. مجھ سے تو ریت میں پڑی یہ لاشیں نہیں دیکھی جاتیں..
انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھیں، ان بچیوں کے لیے نہیں، اس مردہ قوم کے لئے!
اگر یہ واقعہ برطانیہ میں ھوتا اور حکومت اپنے فرائض سے غافل ھوتی۔ تو عوام اس حکومت کے پرخچے اڑا دیتی۔۔۔ پاکستان کی عوام بھی بے حس ھے۔
غضنفر بھائی۔۔۔۔۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہماری عوام
کفار مکہ ۔۔۔۔۔سے بھی زیادہ
کمزور اخلاق اور معاشرتی برائیوں کا شکار ہو چکی ہے۔۔۔
؟؟؟؟
ہمارا اخلاقی انحطاط ۔۔۔۔۔۔۔
مکہ کے دور جاہلیت سے بھی گیا گزرا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
اور
اصلاح اور صورت احوال کی تبدیلی کے لئے کیا لائحہ عمل ہو سکتا ہے کہ سب کچھ بہتر ی کی طرف گامزن ہو سکے۔۔۔۔۔۔
اب یہاں
عمرے پر
بہت ساری پاکستانی خواتین ۔۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا حکمران دعاؤں میں مانگ رہی ہیں
جیسے عوام ویسے حکمران ۔۔۔۔
تو یہ
Vicious circle…….کیسے ختم ہو سکتا ہے
؟؟؟؟
Agree with you Farrukh. I think the same way whenever i look around.
Only solution is
1. Law n order implementation
2.Self assessment after deep reflection
3. Role models
4. With all this Dua
تب ۔۔۔۔ مکہ کے اور ساری دنیا کے اندھیرے کو دور کرنے۔۔پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آ گۓ تھے۔۔
😓😓
اور
اب ۔۔۔۔
ہماری قوم ۔۔۔۔تو ۔۔۔
قحط الرجال
کا شکار ہے۔۔۔۔
کوئی تو ایسا ہو نا چاہیئے جس کے اخلاص پر کوئی شک نہ ہو
جس کا کردار پختہ ہو
جو سارے بکھرے ریوڑ
کو ایک قوم بنانے کی اہلیت رکھتا ہو
اللہ کریم۔۔۔۔۔۔😓😓
مضطرب دلوں کی دعاؤں سننے والا ہے
یہ بہت ھی مشکل حالات ھیں۔ عوام حکمران ایک دوسرے کو الزام دیتے ھیں۔ مگر دونوں ان حالات کے مجرم ھیں۔ حالات کیسے ٹھیک ھوں گے؟؟
کچھ عرصہ سے کافی غوروفکر کے بعد میں نے اسکا جواب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پایا ھے۔
مشکرین مکہ ظالم حکمران اور عوام تھے ۔۔
اللہ نے انکی اصلاح کیلئے جو طریقہ اپنایا وہ یہ تھا کہ ایک رسول بھیجا اور اپنے احکام قران کی شکل میں بھیجے۔
اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبرواستقامت کے ساتھ 23 برس تک انکی ایمانی اور اخلاقی تربیت کی۔ اور پھر یہ لوگ پوری دنیا پر سینکڑوں سالوں تک چھا گئے۔
اج کے دور میں بھی یہی درکار ھے۔ لوگوں کا سارا رحجان صرف عبادات اور صدقات پر ھے۔ ایمان موجود ھے مگر اسلامی اخلاقی تربیت کا نہ کوئی موجودہ معاشرے میں رول ماڈل ھے نہ عام لوگوں کو اسکی تربیت فراھم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود ھے۔
معاشرے میں ایسی تنظیمیں بنانی چاھیئے جو لوگوں کی اخلاقی تربیت کو focus کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں ظلم و ناانصافی کے خلاف اواز بلند کریں۔ ایسی تنظیمیں لوگوں کو قران و سنت کی روشنی میں انکے اور دوسرے انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق سے اگاھی دیں ، انکی تربیت کریں، اور لوکل لوگوں کو engage کرکے کمیونٹی لیول پر ظلم و انصاف کے خلاف جدوجہد کریں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد کے ساتھ اس کام میں 23 سال لگے۔۔ اسکا مطلب یہی ھے کہ سنت الہی یہی ھے کہ لوگوں کو ترغیب دے کر انکی ایمانی اور اخلاقی تربیت کی جائے کیونکہ دنیا میں اللہ لوگوں پر ایمان اور اخلاقیات زبردستی مسلط نہیں کرتا ورنہ تو اخرت میں جزاوسزا دینے کا جواز ھی ختم ھو جائے۔
فرِخ ، اپ خود تو درود و سلام کے ذریعہ لوکل لوگوں میں بہت اچھے عزت و فضیلت کے مقام پر فائز ھیں۔ ان لوگوں کی اخلاقی تربیت بھی کرتیں ھوں گی۔ کیوں نہ انکو ایک step اگے لے جائیں اور اپنے علاقے میں چھوٹے پیمانہ پر ظلم و ستم پر انکی اجتماعی مدد ( یعنی اپنے حلقہ احباب کے ذریعے) کا بیڑا اٹھائیں۔۔ اللہ اپ کے اس جہاد کو مال و عوامی پذیرائی کے ذریعے ضرور کامیابی دے گا۔
بالکل صحیح کہا۔ رول ماڈل تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات تھی جنہوں نے شکر کھانے سے اس لیے اس دن منع نہیں کیا تھا کہ انہوں نے اس دن خود کھائی ہوئی تھی۔ تبلیغ کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خود کو بدل کر رول ماڈل بننے کی کوشش کی جایے۔ زبان کا اثر ہوتا تو ہے لیکن کم۔
Thanks Ghanzanfar for strengthening my thinking n practice.
I am practicing it at individual level. Have to face so many problems as well.
But i believe that some one some where might get encouraged n start doing the same.
But now i feel, there shud b a group practice where like minded n some influencing ppl b involved as when we wud need to take a stand for some one one we will have to fight with the system n for this v need influence for the right purpose.
I am trying at my own level. Just pray i could find good people n could make a group Inshaa Allah.
بالکل ٹھیک کہہ رہےہیں۔۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
معاشرے کی اخلاقی تربیت ایسی کی تھی کہ جہاں انصاف کی وجہ سے
ہر شخص
اپنی مثبت صلاحیتوں کے استعمال اور اس سے معاشرے کےلئے نفع بخش اور مفید ثابت ہوتا تھا
اور ہر طرح کے علوم و فنون نے بے تحاشہ ترقی کی اور سرحدیں بھی دور دور تک پھیل گئیں
یعنی
سب سے ضروری
بنیادی اخلاقی تربیت ہے
جس کے تین اہم لائف چینجنگ نکات ہیں
سچائی
ایمانداری
حسن اخلاق ،( اس میں بھی بہت ضروری ۔۔۔۔ہر کسی کی غلطی کو معاف کرنا اور اس کی اصلاح کے لئے دعا اور کوشش کرنا)
اللہ کریم ۔۔۔۔۔ہمیں دین کی خدمت اور
حسن ِ خدمت ۔
عطا فرمائے آمین ثم آمین۔۔۔۔
ان شاءاللہ ۔۔۔۔اس طرف بھی کوشش جاری ہے۔۔۔۔۔ابھی دو سال تک درود شریف پر کام کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔۔مزید اس تنظیم سازی کے لئے رستہ ہموار ہو جائے گا