پاسباں
پاسبان مل گیے کعبے کو صنم خانے سے۔۔۔۔
لیں جی آپ کو سرجری ٹیبل وائیوا کا قصہ مختصرا سنائیں۔۔۔۔
ایکسٹرنل لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔۔۔
یاں جو انٹرنل کہتا ہے
یہ بات ہے۔۔
اللہ آپ کا بھلا کرے ہمارے فورتھ ائیر کی۔۔۔
چونک گئے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل میں فلم تو شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے۔۔۔
شجاع صاب ان دنوں ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو بن چکے تھے۔۔
ایک دن کسی بات پر پھڈا کر کے ہاوس جاب والوں نے سٹرائیک کر دی۔۔۔
لیں جی۔۔ ان کے بغیر تو وارڈ میں پتہ نہیں ہل سکتا چہ جائیکہ وارڈ اور ایمر جنسی چل جاے۔۔۔
ایک دردناک صدا ابھری۔۔
ہے کوئی سخی جو اللہ کی راہ میں ڈاکٹر بن جاے۔۔
خدمت خلق کا بچپن سے شوق۔۔
اب یہ موقع کیسے چھوڑتا۔۔
لہذا عبدالسلام اور غلام فرید کے ہمراہ جا کر اپنی خدمات پیش کر دیں۔۔۔
اب یہ ذہن میں رہے کہ باقی دو ہستیاں تھیٹے یا خشکے کہلاتے تھے۔۔
بچپن سے ان کی برین واشنگ ہو چکی تھی کہ تم نے ڈاکٹر بننا ہے۔۔۔
میری طرح لفنٹر نہیں تھے۔۔۔
خیر ہماری آفر کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔۔۔
اور باقی دو حضرات رجسٹراروں کے ساتھ ایمرجنسی کو پیارے ہو گیے۔۔
اور میرے مضبوط کندھوں پر وارڈ کا بوجھ آپڑا۔۔۔
وہ بھی کیا رات تھی۔۔
باہر چاند اور اس کی چاندنی۔۔
اندر میں، مریض اور ان کی کہانیاں۔۔۔
کیا خوب ڈاکٹر بنا اس دن۔۔۔
مریض کا اٹینڈنٹ آیا۔۔
ڈاکٹر صاب ۔۔۔
اس کو متلی ہو رہی ہے۔۔۔
نہایت توجہ سے اس کی بات سنی اور آرڈر جاری کیا کہ جا بچہ نرس کو کہہ متلی کا ٹیکہ لگا دے۔۔
ڈاکٹر صاب ٹیکہ لکھ دیں،میں لے آوں۔۔۔۔
ڈاکٹر کی جانے بلا۔۔۔
کون سی دوائی۔۔۔۔ کیسا نام۔۔۔
لہذا حکم جاری ہوا کہ ۔۔۔
نہیں ۔۔
غریب مریضوں پر بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔۔۔
لہذا ۔۔
جاو نرس کو کہو جو وارڈ میں دستیاب ہے لگاے۔۔۔
وہ مشکور نظروں سے دیکھتا چلا گیا۔۔۔
کچھ دیر بعد۔۔
ڈاکٹر صاب اب اس کو الٹی آئی ہے۔۔۔۔
ہوووووووںںںںں۔۔۔
دیکھو ایسا کرو۔۔۔
نرس سی کہو۔۔۔۔
الٹی والا ٹیکہ لگاے۔۔۔
اور ہاں۔۔
وارڈ والا۔۔۔۔
ایک اور آیا۔۔۔
مریض کو درد ہو رہی ہے۔۔۔
کیوں۔۔
کہاں۔۔
کس لیے۔۔
یہ سب جاننے کی زحمت کیے بغیر ہی۔۔
جاو ۔۔
نرس کو کہو۔۔
درد کا ٹیکہ لگاے۔۔۔
اور ہاں ۔۔۔
وارڈ والا۔۔۔
وہ بھی جھولی چک چک کے دعائیں دیتا چلا گیا۔۔۔
اتنا اچھا ڈاکٹر۔۔
فرشتہ ہے فرشتہ۔۔۔
آج کل کے زمانے میں کون غریب کی سنتا ہے۔۔۔
خیر ایسے ہی عظیم فیصلے کرتے کرتے صبح ہو گئی۔۔۔
باقی اگلی قسط میں
کعبہ۔۔۔صنم خانہ
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
سورج سات توپوں کی سلامی دیتا طلوع ہوا۔۔۔
گھڑیال نے آٹھ بجا کر اس عظیم ڈاکٹر کو چھٹی کی نوید سنائی۔۔۔
ڈاکٹر صاب نے رختہ سفر باندھا اور ایمرجنسی تشریف لے گیے۔۔۔
راستہ میں پتہ نہیں اس عظیم ڈاکٹر کو کیوں رہ رہ کر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ہر راہ چلنے والا اس کی تعظیم میں کورنش بجا لا رہا ہے۔۔۔
بھئ آخر کو انسانیت کی کتنی بڑی خدمت بھی تو کی تھی۔۔۔
آخر ایمرجنسی پہنچے اور امیدیں تو اتنی تھیں کہ ابھی سونے کا تاج پہنایا جاے گا ۔۔
مگر غریب ملک کے غریب لوگ۔۔
رجسٹرار عطا صاب نے صرف آٹو گراف دینے پر ہی اکتفا کیا اور گرین رپورٹ کارڈ میں اس واقعہ کا جلعی حروف میں ذکر کیا۔۔
اچھا اتنے میں میری نگاہ پڑی تو عبداسلام بکھرے بال، پراگندہ چہرے، پسینہ پسینہ پریشان حال ۔۔
بونترا ہوا گھومتا نظر آیا۔۔
میرے دل نے صدا دی کہ انسان اگر ڈسپلنڈ نہ ہو تو یہی حال ہوتا ہے۔۔۔
مجھے دیکھو۔۔
پورے وارڈ کو کیا خوب سنبھالا۔۔۔
وہ عطا صاب کے پاس آیا اور کہنے لگا ۔۔۔
سر وہ جو ایکسیڈنٹ میں مریض آیا ہے اس کا GCS زیرو ہے۔۔
ہاں جی۔۔
صاف انڈا۔۔
میں نے واضح طور پو عطا صاب کو ایک گہری ٹھنڈی سانس بھرتے دیکھا اور انھوں نے اپنے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔۔
اپنے ہی بال تھے۔۔۔
کیونکہ عبداسلام دور تھا۔۔
کہنے لگے او بھائی مرے ہوے کا GCS بھی تین ہوتا ہے۔۔
تو کسی میز کرسی کا تو نہیں کر آیا۔۔۔
اس دن مجھے معلوم ہو گیا کہ خشکہ ہو یا لفنٹر ۔۔
سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔۔۔
تو جناب جیسے فلموں میں ہوتا ہے۔۔۔
وقت کا پہیہ گھوما اور میں نے اپنے آپ کو ٹیبل وائیوا دیتے پایا۔۔۔
شجاع صاب اپنی بڑی سی ٹیبل کے پیچھے بیٹھے تھے۔۔
اور ایکسٹرنل سامنے صوفہ پر۔۔
میرے اور اس کے بیچ میں ایک چھوٹی سی میز اور چند عدد مزیدار چاکلیٹ بسکٹ تھے۔۔
(لگ تو مزے کے ہی رہے تھے۔۔دیکھنے میں)ـــ
میں نے موقع پا کر فٹا فٹ درود، آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھے اور یکسٹرنل کے منہ پر انڈیل دیے۔۔۔
ذرا سوچیں کہ آگے کیا ہوا۔۔۔
ملتے ہیں بریک کے بعد
کعبہ۔۔۔صنم خانہ۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ۔۔
ایکسٹرنل کچھ پوچھنا چاہ ریا تھا۔۔
لیکن یہ ان غریبوں کی دعاوں کے قبول ہونے کا وقت تھا جن کی اس مسیحا نے خدمت کی تھی۔۔۔
اس نے پوچھنے کا ارادہ ملتوی کیا اور سامنے دھرا گرین کارڈ اٹھایا اور اس کے مطالعے میں غرق ہو گیا۔۔
آخر اس کے منہ سے یہ شبد نکلے۔۔
شجاع صاب اس نے کسی سٹرائیک میں کام کیا تھا۔۔
ادھر سٹرائیک بھی ہوتی ہے۔۔
میں لرز گیا۔۔
کیونکہ اس کا لہجہ استہزایہ تھا۔۔
سٹرائیک کو لے کر۔۔
میری باری تو ابھی آنی تھی۔۔۔
میں نے کن انکھیوں سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔
تو شجاع صاب کو صاف چونکتے پایا۔۔
انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا۔۔۔
اور پھر۔۔۔
واہ رے میرے مولا۔۔۔۔
شجاع صاب واقعی یاروں کے یار۔۔۔
میں قربان۔۔۔
ایکسٹرنل نے پہلا سوال داغا۔۔۔
what is rovsing sign?
اس سے پہلے کے میں کچھ کہتا۔۔۔
شجاع صاب کی آواز گونجی۔۔
اے جی بہت لائق بچہ آ۔۔۔
میرا بھرا دس ایناں نوں۔۔۔
(اردو میں لکھتا ہوں ورنہ وہ تو خالص پنجابی ہیں)۔۔۔
جب اپینڈکس کی درد ہوتی ہے تو بائیں جانب پیٹ دباو تو مریض کو دائیں جانب درد ہوتی ہے۔۔۔
شاباش بتاو۔۔
میں نے فورا سے بیشتر اردو میں ٹرانسلیٹ کر کے بتا دیا۔۔۔
ایکسٹرنل نے ایک گھوری شجاع صاب کو ایک مجھے دی۔۔۔
پھر پوچھا۔۔۔
what is grey turner sign
ابھی میں نے سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ ایک آوازہ پردہ غیب سے گونجی۔۔۔
سر بہت لائق بچہ ہے۔۔۔
ہاں تو بتا دو سر کو ۔۔۔۔۔
میں نے بھی رٹو طوطے کی طرح فر فر اگل دیا۔۔۔
پھر ایک اور ایک گھوری۔۔۔
اگلے سوال سے پہلے شجاع صاب سے زبان بندی کی درخواست ہوئی۔۔
what is turner sign…
ایک آواز پھر میرے کانوں میں رس گھول گئی۔۔۔
او سر اب میں تو نہیں اس کو بتا رہا کہ یہ۔۔۔۔۔۔
بچہ بہت لایق ہے۔۔
خود ہی بتاے گا۔۔۔
اور بھی بچے نے بتا دیا۔۔۔
اب تو یہ کھیل ہی شروع ہوگیا۔۔۔
ایکسٹرنل سوال کرتے۔۔۔
بچہ نہایت توجہ اور احترام سے سنتا۔۔۔
اور پھر رخ موڑتا اور بچہ اور ایکسٹرنل دونوں ہی شجاع صاب کی مترنم آواز پر سر دھنتے۔۔
اس کے بعد میں صرف یہی کہنے پر اکتفا کرتا۔۔۔
سر بالکل یہ ہی۔۔۔
لیں جی یہ سلسلہ کچھ دیر چلا۔۔۔
اور آخر میں تو یہ حال ہو گیا کہ میں آرام سے براجمان ہو گیا اور دونوں استاد محترم۔۔۔
سرجری کی اور انٹرومنٹس کی بھول بھلیوں میں گم ہوگیے۔۔۔
آخر ایکسٹرنل کہنے لگے۔۔۔
سر جی مجھے نہیں پتہ تھا۔۔۔
پی ایم سی میں اتنے لائق سٹوڈنٹس ہیں۔۔۔
بڑا مرعوب نظر آ رہا تھا۔۔۔۔
میرا خیال ہے مجھی سے۔۔۔
شجاع صاب کہنے لگے ۔۔۔
شاباش بیٹا جاو۔۔۔
اور باقی تاریخ ہے۔۔۔
مل گیے پاسبان کعبے کو صنم خانے سے۔۔۔
اللہ اللہ۔۔۔
شجاع صاب زندہ باد۔۔۔