کچھ شرارت ھو جائے
کالج کے در ودیوار۔۔
کالج کا سنہری زمانہ کب کسی کو بھولتا ہے۔۔
بشرطیکہ اس کے ساتھ کچھ بہت بھیڑا نا ہوا ہو۔۔
کچھ لوگوں کے بڑے بڑے کارناموں کے ساتھ ساتھ ہم جیسوں کی معصوم سی شراتیں بھی چلتی رہتی تھیں۔۔
ایسا ہی ایک چھوٹا سا، نکا سا، معصوم سا واقعہ ہے تھرڈ ائیر کے ایک کلاس وائیوا کا۔۔
اللہ بھلا کرے یہ وائیوا تھا فارماکالوجی کا۔۔۔اور میرے گروپ کا وائیوا جس ڈیمونسٹریٹر کے پاس آیا تھا وہ میرے حساب سے تو اپنے یار ہی تھے۔۔
یہ علحدہ بات ہے کہ یار نے ایسا چھرا گھونپنے کی کوشش کی تھی کہ بس بروٹس یو ٹو ہوتے ہوتے رہ گیا۔۔
وہ تو اپنی چھوٹی سی حکمت عملی کام آ گئی۔۔۔
ورنہ تاریخ لکھتی کہ (ذرا ترنم سے)۔۔۔
کی یار دا بھروسہ یار۔۔
یار کم آوے نا آوے۔۔۔
تو جی یہ دوست نما کون تھے۔۔
اب نام بتا کر دوستی کو بدنام نہیں کر سکتا۔۔
ہاں ان سے دوستی کیسے ہوئی یہ گوش گزار کرتا ہوں۔۔
لیکچر ھال
ہوا یہ کہ ایک دن فارماکالوجی لیکچر ہال میں میں حسب معمول شدید قسم کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھا۔۔
آدھا لیکچر گزر چکا تھا۔۔
(بھئی جب آنا ہی بیس منٹ لیٹ ہو، کبھی کبھی چالیس منٹ، تو مضمون کور کرنے کیلیےمقابلہ تو سخت ہوتا ہے نا)
ویسے مجھے امید تو نہیں لیکن اس وقت تک جو لوگ میری محنت سے ایمپریس ہو رہے ہیں، ان کے گوش گزار بس اتنا ہی کافی ہو گا کہ میں حت الامکان طور پر جو بھی آخری بینچ ہوتا تھا وہاں ہی پایا جاتا تھا۔۔
کلاس میں کلاس
زیادہ تفصیل یہ ہے کی میرے مطابق۔۔
کلاس تین حصوں میں تقسیم تھی۔۔
حصہ اول۔۔
اولین بینچ والے۔۔
زبردست خشکے۔۔۔
جنھیں دنیا کا کوئی ڈینڈرف شیمپو بھی صاف نہیں کر سکتا تھا
یہ وقت سے دس منٹ پہلے کلاس میں موجود ہوتے تھے کہ اگلے ڈیسک پر قابض ہو سکیں (ہم تو جیسے اس گولڈن سیٹ کیلیے مرے جاتے تھے ناں)ــ
فرنٹ بینچ نا ہو گیا۔۔وزارت عظمی ہو گئی۔۔
استاد محترم کے منہ سے ادا ہوا ہر ایک حرف، چشم زدن میں قلم کی گرفت میں ہوتا تھا۔۔
کوئی ایک قومہ۔۔ فل سٹاپ۔۔خبردار۔۔ہشیار بچ کے جانے نا پاے۔۔
ویسے آپس کی بات ہے ایویں تو نئی ٹاپ کرتے تھے۔۔۔
یہ علحيده بات ہے کہ امتحان کے دن ان کے منہ مبارک ہم سے بھی زیادہ فق ہوتے تھے۔۔
اور بندے کو یک گونا اطمینان نصیب ہوتا تھا کہ جب آخر میں ہوائیاں ہی اڑنی ہے تو سارا سال کیوں خوار ہو۔۔
درمیانی سیٹیں
درمیانی سیٹوں پر وہ طلبہ براجمان ہوتے تھے جن کو پڑھنا بھی ہوتا تھا اور کچھ دوسری سرگرمیاں بھی کرنی ہوتی تھیں۔۔
جیسے کہ غیبتوں کا علمی بیان۔۔
کانا پھوسیاں۔۔
ڈراموں اور کالج یا ہاسٹل لائف پر مفصل گفتگو۔۔
میک اپ کے فضائل (لڑکیاں گروپ، صحیح تکا مارا ہے ناں)
ویسے اپنے تئیں یہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ اگر ماسٹر نے کچھ پوچھا بھی تو درمیان میں ہونے کی وجہ سے یہ بچ جائیں گے۔۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ عام طور پر جم غفیر ہونے کی وجہ سے ماسٹر کی نظر کرم زیادہ تر انہیں کی طرف جاتی تھی۔۔
اور جی پھر باری آتی تھی۔۔
آخری گروپ کی۔۔
آخری کلاس
پڑھائی ان کا اتنا درد سر نہیں ہوتا تھا۔۔
البتہ دوسری سرگرمیوں کا ہر اول دستہ۔۔
کچھ مصروفیات پر میں آگے چل کر روشنی ڈالوں گا۔۔
اور کچھ سنسر کی زد میں آ جائیں گی۔۔۔
اور ہاں۔۔
اس سنسر میں بالک اور بالیاں دونوں کا برابر کا حصہ ہے۔۔
تو جی ذکر ہے ایسے ہی ایک لیکچر کا۔۔
میں اور میرے رفقا پوری تندہی سے اپنے کام میں مصروف تھے۔۔
داہنے ہاتھ والے تاش کھیل رہے تھے اور دے رنگ کی بازی پر بازی چل رہی تھی۔۔ دو اخری صف کے شہسوار اور دو اس سے اگلی کے۔۔
بائیں جانب نئی فلموں اور گانوں پر سیر حاصل علمی گفتگو ہو رہی تھی۔۔
اور یہ بھی طے کیا جا رہا تھا کہ ہاسٹل میں آج کس دوست کے پاس تازہ تازہ پیسے گھر سے آئے ہیں اور اس کا کیا کیا جانا چاہیے ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ ادھار واپس کرنے میں انھیں ضائع کر دے۔۔
اور میں اپنے فن مصوری کے عروج پر تھا۔۔
اور ماسٹر صاحب کی تصویر نہایت محنت سے کینوس ( کاپی کے صفحہ) پر منتقل کر رہا تھا۔۔
غرض خوب محنتی ماحول تھا۔۔۔
پھر ھوا یوں۔۔۔۔
اچانک میری نظر اٹھی اور کلاس کا طائرانہ جائزہ لیا۔۔۔
تو بس مارے حیرت کے گم ہو گیا۔۔۔
کیا دیکھتا ہوں۔۔۔
کہ کچھ بدلا بدلا سا ماحول ہے۔۔
آج تک میری پاکباز آنکھوں نے یہ گناہ گار منظر نہ دیکھا تھا۔۔
جناب۔۔
اگلی صفوں والے۔۔
جی جی۔۔
ہر اول دستے کے مجاہد۔۔
فارغ بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔۔
کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں۔۔
پہلے تو مجھے یقین نا آیا۔۔
مگر جب دیکھا کہ عمار بھائی جیسے۔۔
متین انسان بھی۔۔
رجسٹر بند کیے بیٹھے ہیں۔۔
تو عین الیقین سے حق الیقین ہو گیا۔۔
وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا۔۔
کہ ماسٹر صاحب ایسے لیکچر دے رہے ہیں جیسے مدرسے کہ بچے قرآن پڑھتے ہیں۔۔(بھئی معذرت کہ یہی مناسب ترین مثال ہے)
نظریں اپنے نوٹس پر جماے رٹو طوطے کی طرح۔۔۔
بس فرق یہ تھا۔۔
کہ ماسٹر صاحب ایک تو کھڑے تھے اور دوسرا آگے پیچھے ہل نہیں رہے تھے۔۔
ورنہ بلٹ کی رفتار سے منہ سے لفظوں کی فائرنگ ہو رہی تھی۔۔
یقین مانیں۔۔
زندگی میں پہلی دفعہ۔۔
جی ہاں پہلی دفعہ۔۔
میں نے نہایت سنجیدگی سے ٹھان لیا۔۔۔
کہ ماسٹر صاحب اور علم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دینی۔۔
چاہے کچھ بھی ہو جاے۔۔
میں اکیلا۔۔
فرد واحد علم کا جھنڈا اٹھا کر چلوں گا۔۔
لیں جناب اپنے انتہائی اہم کام کو چھوڑ چھاڑ۔۔
میں دے دھنا دھن۔۔
ماسٹر صاحب کی علمی گفتگو کو ضبط تحریر میں لانے میں مصروف ہو گیا۔۔
پر جی کیا کروں۔۔۔الفاظ کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اگر مجھے شارٹ ہینڈ بھی آتی ہوتی۔۔
تو بھی یہ شاید ممکن نا تھا۔۔
الفاظ میری گرفت سے ریت کے ذروں کی مانند پھسلتے جا رہے تھے۔۔۔
اور میں نہایت بے چارگی سے بس دیکھ ہی سکتا تھا۔۔۔
آخر میرے دل نے کہا نہیں۔۔
مجھے کچھ کرنا چاہیے۔۔تو جی پہلی دفعہ اپنی زندگی میں پوری سچائی سے ۔۔
اپنے دل کی گہرائیوں سے میں نے پکارا۔۔۔
سر۔۔
کیا آپ یہ آخری جملہ دہرائیں گے۔۔۔
بس۔۔۔
یہ کہنا قیامت ہو گیا۔۔
ایسے جیسے کسی نے بلٹ ٹرین کی ایمرجنسی بریک لگا دی ہو۔۔۔
ماسٹر صاحب نے اپنی نگاہ کرم مجھ پر ڈالی۔۔۔
اب یہ شاید میرے پرانے اعمال تھے۔۔
یا پچھلے بینچ کی بری ریپوٹیشن۔۔۔
یا شائد انھیں اپنا مسمراتی تسلسل ٹوٹنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔۔۔
وہ سمجھے کہ شاید میں ان کا مذاق اڑا رہا ہوں۔۔
وجہ۔۔
وجہ یہ کہ جب سامنے کی بنچ والے اگر نہیں کچھ لکھ رہے۔۔
تو یہ آخری بنچ پر بیٹھا۔۔
ناہنجار۔۔
اس کی یہ جرأت ۔۔۔
حکم صادر ہوا۔۔
کہ اب تک جو کچھ لکھا ہے وہ سامنے لا کر دکھاو۔۔۔
ایسا حکم سکول کے بعد تو کبھ نہیں ملا تھا۔۔۔
اب میں سوچوں کہ کروں تو کیا کروں۔۔
ذرا میری حالت ملاحظہ فرمائیں۔۔
میں نے اپنے صفحہ پر نگاہ دوڑائی۔۔
اوپر کے تین چوتھای صفحہ پر ماسٹر صاحب کی تصویر بنی تھی۔۔۔
وہ بھی ہیبت ناک۔۔
اس سے خوبصورت تو ہندوؤں کی کالی ماتا ہو گی۔۔۔
اور کل سوا تین لائینیں میں نے اس کے نیچے لکھنے کی کوشش کی تھی۔۔
اب کبھی ماسٹر صاحب کو دیکھوں کبھی اپنے صفحہ کو۔۔
پھر مدد طلب نگاہوں سے دائیں بائیں دوستوں دیکھا۔۔
ان کے پلے جو تھا انھوں نے پورے خلوص سے پیش کر دیا۔۔
اینٹ کے پتے کی دُکی۔۔
پان کی چھکی۔۔
حکم کا یکہ اور
چڑیا کی بیگم۔۔
جو مال ومتاع تھا۔۔
سب سامنے رکھ دیا۔۔
ادھر سے پھر حکم صادر ہوا کہ میں سٹیج پر آ کر حاضری دوں۔۔
مرتا کیا نا کرتا۔۔۔
آخر صفحہ کو درمیان سے پھاڑا۔۔
اور شرابی کی چال چلتا۔۔۔
گرتا پڑتا سٹیج پر جا پہنچا۔۔۔
لرزتے ہاتھوں سے سوا تین لائینیں ماسٹر جی کی خدمت میں پیش کی۔۔
ایسے لگتا تھا جیسے ڈاکیا ٹیلی گراف لے کر آیا ہے۔۔۔
انھوں نے اسے بحق سرکار ضبط کیا۔۔
پھر مجھے خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوے کہا۔۔۔
جاو۔۔
جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جاو۔۔
جان بچی سو لاکھوں پاے۔۔۔
مجھے اپنی زندگی کا سبق مل گیا تھا۔۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔
شیطان شیطان ہی بھلا۔۔
سادھو بنے تو بہت بری ہو سکتی ہے۔۔
جناب میں نے ایسے ریورس گئیر مارا کہ۔۔
جیسے بھئو بھئو میرے پیچھے لگے ہوں۔۔
(خبردار اسے بھٹو مت پڑھیں)ــ
تو جی یہاں سے میری اور ان کی دوستی کی ابتدا ہوئی۔۔
اتفاق فاونڈری کے لوہے سے مضبوط۔۔۔
فارماکولوجی کا امتحان
جب معلوم پڑا کہ وائیوا ان ہی کے پاس آیا ہے تو دل باغ باغ ہو گیا۔۔۔
انھیں ضمیر فروشی کی ترغیب تو نا دی۔۔
بس کچھ چھوٹ چاہیئے تھی۔۔۔
وائیوا فارماکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی اوپر کی منزل پر تھا۔۔۔
آپ سب جانتے ہیں کہ دائیں ہاتھ لیبارٹری نما کمرہ کافی بڑا تھا۔۔
پلان یہ تھا کہ اندر جو سوال پوچھے جائیں گے۔۔
ان کی فرسٹ ہینڈ جانکاری لے لیتے ہیں۔۔
مگر اس کیلیے ضروری تھا کہ دروازہ کھلا ہو۔۔۔
تاکہ دور سے آواز باہر آسکے۔۔
ویسے تو جو بھی وائیوا دے کر باہر آتا۔۔
اس سے بھی سوال پوچھ سکتے تھے مگر لائیو سٹریمنگ کا مزا ہی اور تھا۔۔
کسی کا احسان کیا لینا۔۔
لہذا دروازہ تھوڑا سا کھول دیا۔۔
مگر جی دوست دوست نا رہا۔۔
اور میری سکیم بھانپتے ہوے بوا بھیڑ دیا گیا۔۔۔
میں کہنے ہی لگا تھا۔۔۔
یو ٹو بروٹس۔۔۔
پر اپنے غصہ پر قابو پایا اور ایک چال چلی۔۔۔
دروازے کو باہر سے کنڈی مار دی۔۔
اور دروازے سے کان لگا دیے۔۔۔
اب جب علی جاوید وائیوا دے کر باہر آنے لگا تو دروازہ نا کھلے۔۔
اندر سے اس کی جینوئن حیران کن آواز آئی۔۔
سر دروازہ نہیں کھل رہا۔۔۔
آگے سے اس سے بھی کئی گنا زیادہ حیران کن آواز سنائی دی۔۔۔
کیا مطلب نہیں کھل رہا۔۔
کیا ناشتہ نہیں کیا؟ــ
کھولو اسے۔۔
پھر دروازے کے ساتھ زور آزمائی ہوئی ۔۔۔
پر نتیجہ وہی ڈھاک کے دو پات۔۔۔
آخر کرسی گھسٹنے کی آواز آئی۔۔۔
اور قدموں کی چاپ قریب آئی۔۔
اب میں نے چپکے سے دروازہ کھول دیا۔۔۔
اور پیچھے ہٹ گیا۔۔۔
سر نے دروازہ کھینچا تو وہ کھل جا سم سم کی طرح کھلتا چلا گیا۔۔۔
انھوں نے حیرت اور غصے کی ملی جلی کیفیت سے علی کو گھورا۔۔۔
جس نے جوابا زیادہ حیرت اور غصے سے دروازے کو ایسے گھورا جیسے۔۔۔
دروازے کا دماغ چل گیا ہو۔۔۔
خیر معاملہ آیا گیا ہو گیا۔۔
اب باری تھی۔۔
افتخار عرف افی کی۔۔۔
میں نے پھر وہی عمل دہرایا۔۔۔
اور جیسے کسی سیانے نے کہا ہے۔۔
ایک ہی عمل مسلسل ایک ہی طرح کرنے سے کسی دوسرے جواب کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔۔۔
تو جی بالکل پھر ویسا ہی ہوا۔۔
وہی یعنی کہ۔۔
سر دروازہ نہیں کھل رہا۔۔
(جیسے سر لاک ماسٹر ہیں۔۔یا کوئی جنتر منتر پھونکیں گے)
کیا مطلب۔۔
کھانا نہیں کھایا۔۔۔
کرسی گھسیٹنے کی آواز۔۔
قدموں کی چاپ۔۔
میرا کنڈی کھولنا۔۔
اور دروازے کا سم سم ہونا۔۔۔
ایک بار پھر وہی دلکش منظر آنکھوں کے سامنے۔۔۔
دونوں چہروں پر حیرت، غصہ اور شرمندگی۔۔۔
ایسے جیسے دروازہ ان دونوں پر ہنس رہا ہو۔۔۔
اگلا مرحلہ مجھے معلوم تھا کہ کیا ہو گا۔۔
لہذا جب اگلا لڑکا اندر گیا تو میں پیچھے ہی رہا۔۔
وائیوا شروع ہونے سے پہلے ہی دروازہ دھاڑ کر کے کھلا۔۔۔
مانو کہ بس ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔۔۔
اور سر کی کچھ حیران۔۔
کچھ شرمندہ۔۔
شکل نظر آئی۔۔
اب انھیں پقین ہو چلا تھا کہ دروازہ کھلا ہوتا ہے۔۔
بس لڑکے انھیں تنگ کرنے کیلیے ہی ایسا کرتے ہیں۔۔
یہ یقین اس وقت پختہ ہو گیا جب اس دفعہ وائیوا ختم ہونے پر انھوں نے دروازہ پھر دھاڑ سےکھینچا اور وہ کھل گیا۔۔۔
اور وہ پھر کچے سے ہو گیے۔۔۔
اب کیا کیجیے جب اگلی دفعہ عبداسلام اندر گیا تو وہ گندہ بچہ بن گیا۔۔
کیونکہ دروازہ پھر نہیں کھلا۔۔۔
شائد اس نے بھی ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔
اس آنکھ مچولی سے تنگ آ کر فیصلہ ہوا کہ دروازہ اب بند ہی نہیں ہو گا۔۔
اور وہ اس وقت تک چوپٹ کھلا رہا جب تک آخری وائیوا نہیں ہو گیا۔۔۔
تو جی کیا سمجھے۔۔۔
آخری اخلاقی فتح میرے صبر کی ہوئی۔۔۔
کیسا یادوں کا سمندر ہے۔۔
رم جھم
آو پھر سے ھم جاری کریں
وہ دوستی کا زم زم
وہ باتوں کی رم جھم
وہ یادوں کی بارش
وہ پی ایم سی ، وہ ہم تم۔۔
وہ گداز یادیں، پی ایم سی کی بہاریں
وہ چمکتے سے چہرے وہ دمکتی سی باتیں
وہ گزرے دنوں کا موسم، وہ سنہری بہا ریں
(یہ نظم چارمنگ سیشن کی پہلی سالگرہ پر مشترکہ کاوش تھی)