قرآن کو سمجھو
کیا قرآن پاک بغیر سمجھےپڑھنااور سننا بے فاٸدہ ھے؟اٹھک بیٹھک والی نماز کی طرح محض عربی کی گردان ھے۔۔۔۔کیا فرماتے ھیں اھل فکربیچ اس مسٕلہ کے؟
فکروفہم قرأن و دین کی فضیلت و ضرورت پر کویٕ دو رإے نہیں
قرآن میں اللہ فرماتا ھے کہ جاننے والے اور نا جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔
قرآن پڑھنا ۔۔۔سننا ۔۔۔
سمجھے بغیر ۔۔۔نور ۔ ہے
اور
سمجھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔
نور علیٰ نور
ہے۔۔۔۔۔۔اور
حسن نیت
حسن علم
حسن عمل
حسن اخلاق
حسن خدمت وعبادت
کو
زیادہ کرتا ہے
درجات کی بلندی اور
اللہ کریم کے قرب کا باعث ہے
لیکن
یہ کہنا کہ
اگر سمجھ کر نہیں پڑھنا ۔۔۔۔رو پھر
اس کا پڑھنا ۔۔۔سننا ۔۔بےکار ہے۔۔
بےوقوفی
جاہلیت
اور بے ادبی
ہے
بےشک اور یہ بھی ارشاد باری تعالی ھے جس کا مفہوم کچھ اسطرح ہے کہہ اگر تم نہیں جانتے تو اھل ذکر سے سوال کرو
اچھا سوال ھے ۔۔ کیونکہ، بہت سے حوالے ملیں گے احادیث میں قرآن پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں، پر کیا اس کا مطلب واقعی صرف recitation ھے یا پھر سمجھنا بھی اس حکم میں شامل ھے، شائد اسے بیان کرنا مشکل ھو۔۔۔۔۔۔۔ keep posted
ان لوگوں کی مثال جنہیں تورات اٹھوائی گئی پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (اس) گدھے کی سی مثال ہے جو کتابیں اٹھاتا ہے، ان لوگوں کی بہت بری مثال ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
القران ( 11 : 62 )
غامدی صاحب اسی نقطہٕ نظر کے داعی ہیں۔اگر یہ مان لیا جإے تو میری طرح اوسط فہم و علم والا مسلمان تو فارغ ہے
وہ کیوں بھلا ۔۔۔۔۔ حساب کوشش پر ھے، اس پر نہیں کہ کس نے کتنا کیا۔۔۔۔
قرآن قیامت تک کے لئے ہر انسان کےلئے ہدایت اور ذریعہ ء نجات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی
وڈے سراں دیاں وڈیاں پیڑاں
جس کےپاس زہانت ۔۔۔علم۔۔تجربہ۔۔۔معاملہ فہمی ۔۔یادداشت ۔۔۔۔تجزیاتی۔۔تحقیقاتی صلاحیتوں کا جتنا ذخیرہ اور ملکیت ہے۔۔۔۔۔
۔
قرآن ۔۔۔۔۔۔پڑھنے اور سمجھنے کا لیول اور اس حساب سے جزا سزا ۔۔۔۔۔
کا پیمانہ اللہ کریم ۔۔۔کے اختیار میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اللہ کریم کسی نفس پر ظلم نہیں کرتا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
آپ بے فکر ہوکر اپنی محنت ۔۔قرآن پڑھنے سمجھنے کے لئے جاری رکھیں۔۔۔۔۔۔
اللہ کریم نے انسان سے
صرف
کوشش مانگی ہے ۔۔۔۔۔۔نتیجہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے
کتنے لوگ پڑہے لکھے ھیں اور کتنے لوگ پڑھے لکھے گزرے ھیں اورکتنے لوگ عربی کی فہم کے اعلی درجے تک پہنچے کہ قرأن و حدیث سے براہ راست اکتساب کر سکتے ہوں
میری فہم کے مطابق، ھر کسی نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنا ھے، جو کہ فرض ھے۔ ھر کسی کا عالم ھونا شرط نہیں ھے۔ جو لوگ پڑھ نہیں سکتے، انہیں کسی پڑھے کی ضرورت ھے سمجھنے کے لئے ۔۔۔۔ مطلب علم والوں کی دوھری ذمہ داری ھے۔۔۔۔
بے شک ۔۔۔۔ کوشش شرط ھے۔۔۔
ویسے اگر سارے قران کی مختلف ایات کو سامنے رکھا جائے تو میرے خیال میں نتیجہ یہی نکلتا ھے کہ اگر انسان ایمان رکھتا ھے اور نیکی کی جدوجہد کرتا ھے تو اسکا اجر ضرور ملے گا۔ کچھ لوگ یہ سب کچھ قران کی صرف عربی پڑھ کر کر لیتے ھیں اور بہت سی باتیں دوسرے مسلمانوں سے اور علما سے سیکھ لیتے ھیں ۔ کچھ اور اسکا ترجمہ پڑھتے اور کچھ اور تفاسیر۔ مگر آخر میں سب ایمان رکھتے اور نیک عمل کرتے ھیں۔ انکے درمیان کس کا درجہ زیادہ یا کم ھے صرف اللہ جانتا ھے۔۔۔
جبکہ یہ ایت ان لوگوں کے بارے میں ھے جو ایمان چھوڑ کر کھلی گمراھی میں پڑ جاتے ھیں۔
اسلئے میرے خیال میں کسی انسان کا دنیاوی طرزعمل اصل چیز ھے اور اگر اسے اس میں کمی نظر اتی ھے تو اللہ کی کتاب سمجھنے سمیت ھر ذریعہ سے ھدایت پانے کی کوشیش کرنی چاھئے۔
جی با لکل یہی عرض کرنا تھی کہہ اھل ذکر سے بھی رہنمإی اور اکتساب ضروری ہے۔
👍🏼👍🏼 ھو سکتا ہے غلط perception ہو مجھے ایسے لگا کہ کچھ احباب کی نظر میں روإتی مسلمان ھونا عمل عبث ھے۔عبا دات محض روایات ھیں اس لیے جسارت کی تھی۔ جزاك اللهُ
علم اور عقل ۔۔۔۔کا بہت درجات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن
اس سے زیاد ہ درجات ۔۔۔کے لئے
عشق ۔۔۔۔۔۔۔
کے علاوہ کوئ ذریعہ نہیں۔۔۔۔۔
عشق ۔۔۔۔۔۔۔حسنِ عبادت
اور حسنِ خدمت
کے لئے
نسخہ ء کیمیا ہے۔۔۔
دوسروں سے رہنمائی درست ھے۔
مگر اپنی سوچ و سمجھ ضروری استعمال کریں ۔ جیسے سری والی سرکار بھی تو اھل ذکر اور عالم ھونے کے دعوی دار ھیں اور پیروکار رکھتے ھیں
علم و عقل اور سوچنے کی بات تو سمجھ میں آتی ھے۔
لیکن عشق والی بات میں ابھی بہت کنفیوژن ھے۔
عاشق تو سارے پین دئ سری والی ٹیم میں بھی ہیں۔
قرآن میں عشق کے ساتھ ایمان لانے والوں اور سوچ سمجھ کر ایمان لانے والوں کے بارے میں کیا حکم ھے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
ایمان ۔۔۔۔۔۔کے لیے کچھ کو چنا جاتا ہے
کچھ کو علم ۔۔عقل ۔فہم کی راہگزر سے گزار کر ایمان دیا جاتا ہے
ایمان ۔۔۔۔۔کا لازمی نتیجہ
محبت اور عشق ہے۔۔۔
محترم جواد بھائی۔۔۔۔۔۔
اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جیسا الاؤ
کسی آج کل کے دانشور مومن کےلئے تیار ہو تو
آپ کے مطابق
دانشور مومن ۔ ۔۔۔۔آگ میں چھلانگ لگانے کی بجاۓ ۔۔۔اپنی جان بچانے کی کوشش کرے۔۔۔اس لئے کہ
جان بچانے کے لئے تو کلمہءکفر کہنا بھی جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔
مگر
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کریم سے محبت۔۔عشق اور ایمان کی پختگی
نے حضرت جبریل علیہ السلام سے مدد کی افر قبول کرنا بھی گوارا نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
اور پلیز ۔۔۔۔۔۔۔
یہ نکتہ نوٹ کر لیا جاۓ۔۔۔۔۔
کہ میں جب بھی ایمان کے ساتھ محبت اور عشق کا حوالہ دیتی ہوں تو
اس کے لئے ریفرنس
یا تو
علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ
کے حال احوال ہیں
یا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آتش نمرود میں بے خوف چھلانگ
آئندہ۔۔۔۔۔۔
رنگ برنگ نام نہاد عشق کے جھوٹے دعویداروں ۔۔۔ ۔۔کے ساتھ جوڑ کر
اس عظیم لافانی جزبے ۔۔۔کی توہین نہ کی جائے۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیر
آپ کے نقطہ نظر کا احترام ھے۔
لیکن میری سمجھ کے مطابق حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ایمان کی منزلیں سوچ سمجھ کر اور غور وفکر کے بعد طے کی تھیں۔ پہلے بتوں کی نفی کی پھر چاند کو خدا مانا ۔ پھر سورج کو ۔ پھر جا کر اپنے رب تک پہنچے تھے۔ غور وفکر حضرت ابراھیم کی سنت ھے۔ اور اسی کی وجہ سے ایمان کی منزلیں اتنی بڑھی ۔
او بھائی میرے
غورو فکر سے کس کو انکار ہے۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے تو اللہ سے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے دکھائیں کہ آپ۔مردہ کو کیسے زندہ کریں گے تاکہ میرے دل کا یقین اور اطمینان زیادہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم پلس غوروخوص پلس اطمیان قلب۔۔۔
ایمان کو زبان سے دل کی گہرائیوں میں لےجاتا ہے اور
اپنا سب کچھ اللہ کی رضا پر قربان کر دینے والا ۔۔۔عشق ۔۔۔۔اس سفر کی آخری منزل ہے۔۔۔
شکریہ فرخ۔۔۔۔
پر ایک بات سے اختلاف چاھوں گا۔۔۔۔۔
ایمان صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی چاہت سے ھی مل سکتا ھے، ورنہ کوئی کتنی بھی علم عقل فہم کی ریاضتیں کرتا پھرے۔۔۔۔
دوسری بات، حضرت ابراہیم کا ایمان تھا تو وہ مان کر آگ میں کودے۔۔۔۔۔۔ مطلب اس پاک ذات سے عشق ایمان کی وجہ سے تھا، تو خلیل اللہ کہلائے، نا کہ عشق کی بنا پر ایمان دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لوگ أپ کی توجہ کے قابل ہی نہیں ہم نے تو جہاں سے حکمت و ہدایت ملے اسے سمیٹتے جانا ھے جہاں تک اہل ذکر کی بات ہے میں تو اپنے جہاز کے پإیلٹ کو بھی اہل ذکر سمجھتا ہوں وہ ڈاکٹر جو میرا علاج کرے بیشک وہ مجھ سے زیادہ جانتا ھے تو میں اسی سے پوچھوں گا اسی طرح دین کے معاملات ہیں
لوگوں نے قران سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دیا۔ پھر جو جس مسلک کے گھرانے میں پیدا ھوا یا جس سے کسی طریقہ سے منصوب ھو گیا اسنے اس چیز کا اندھا یقین کر لیا کہ انکے مسلک کے ائمامہ کی کہانیاں، اپنے مطلب کی احادیث اور روایات، اور تفسیرین ہر حال میں سچ ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گروہ یعنی اسکے بڑے یا ائمامہ اور انکے پیروکار قران کے مطابق قیامت کے روز اکٹھے رکھے جائیں گے۔ پھر انکی ان باتوں کا فیصلہ کیا جائے گا جن میں وہ دوسروں سے اختلاف کرتے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کو الزام دیں گے مگر سب کی جائے مقام انکے عقائد و اعمال کے مطابق ایک ھی ھو گئی۔۔۔۔
اللہ قران کے بیان کے مطابق لوگوں سے کہے گا::: جب تم تک میری ایات پہنچی تھیں تو کیوں نہ تم نے ان کا علمی احاطہ کیا۔۔۔۔۔۔
اس ایت پر غور کریں ۔۔۔ کتنے لوگ ھیں جنہوں نے قران کی ایات کا علمی احاطہ کیا ھے!!
اسلئے قران کا کم از کم ترجمہ خود سے بغیر تفسیر کے بار بار پڑھئے اور اپنے ذھین سے اسکا عملی احاطہ یعنی analysis کریئے۔
تمام مسلک اور انکے گزرے بزرگوں کی روایات یا تشریحات یا تفسیروں میں خامیاں اور غلطیاں ھیں۔ حتی حدیث کی کتابیں جن میں 60 ھزار احادث ھیں میں بھی غلط روایات بھری پڑی ھیں جو قران کی ایات سے متصادم میں۔۔۔
دین کو سمجھنے کیلئے صرف ایک ھی کتاب اپنے خالص text کے ساتھ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منظور کی گئی ھے اور وہ ھے قران پاک۔۔۔۔۔۔