جیدوں ہولی جئی لینداں سپلی دا ناں
میرا سوہنا دوست کے بی
کچھ یادیں کچھ باتیں
جیدوں ہولی جئی لینداں سپلی دا ناں
میں ناں ناں کردی آں
ہائے نی ہائے
میں ناں ناں کردی آں
یہ کیفیت میرے پیارے بھائی کے بی کی تھی۔۔
وہ نعیم لمبو اور اس وقت کو کوس رہا تھا
جب اس نے حامی بھری تھی۔۔۔
اللہ جھوٹ نا بلوائے۔۔۔
اس سپلی کے چکر میں۔۔۔
اس کی خاندانی عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔۔۔
ویسے یہ امتحان والی سپلی نہیں جس سے سب ڈرتے تھے۔۔۔
یہ تو ایسی عظیم سپلی تھی۔۔
جس کیلیے ہر ہاسٹلائیڈ بے چینی سے انتظار کرتا تھا۔۔۔
اس دن ایک جشن کا سماں ہوتا تھا۔۔۔
ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اس کا تقاضا کرتا تھا۔۔۔
اور بار بار کرتا تھا۔۔۔۔
تو جی۔۔۔۔
آج کل کے بی۔۔
روزانہ ہی سب کو کھلے عام کھانے پینے کی دعوت دیتے ہیں
اور دن میں کئی بار دیتے ہیں۔۔۔
لیکن یہ پہلے ایسے نہیں تھے۔۔
اس زمانے میں یہ شیخ کے بی کہلاتے تھے۔۔
وہی شیخ جن کے متعلق مشہور ہے۔۔
کہ کسی نے شیخ کو سکھانے کی کوشش کی کہ زکوۃ کیسے دی جاتی ہے۔۔
کہنے لگا ۔۔
شیخ صاحب اپنے اردگرد ایک “چھوٹا” دائرہ لگاو۔۔۔
پھر اس میں کھڑے ہو کر پیسے اوپر پھینکو۔۔۔
جو دائرے میں گریں وہ زکوۃ۔۔
جو باہر گریں۔۔۔
وہ تمہارے۔۔۔
شیخ صاحب نے اس کی طرف ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔
بیٹا ایسے زکوۃ دیتے ہیں؟
افسوس ہے آپ پر۔۔۔
کوئی دائرہ وائرہ نہیں۔۔۔
سیدھی طرح پیسے اوپر پھینکو۔۔
جتنےاللہ میاں کو چاہئے ہوں گے وہ رکھ لیں گے۔۔۔
باقی آپ کو واپس نیچے پھینک دیں گے۔۔۔
تو جی ایسے المعروف شیخ تھے۔۔۔
بس ایک واقعہ ہوا۔۔
اور انھیں پنجایت بلا کر شیخوں کی بستیوں سے نکال دیا گیا۔۔۔
ان کا ایک مشہور طریقہ واردات تھا۔۔۔
جو انھوں نے ایجاد کیا تھا۔۔۔
ہمارے زمانہ طالب علمی میں موبائل وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے۔۔۔
اس زمانے میں PCO ہوتے تھے۔۔۔
آپ سب کو یہ تو معلوم ہو گا کہ وہاں سے کال کافی مہنگی ہوتی تھی۔۔۔
مگر یہ کسی کو نہیں معلوم ہو گا کہ فون بوتھ پر پہلے تین سیکنڈ میں اگر کال کٹ جائے تو پیسے چارج نہیں ہوتے تھے۔۔
یہ بات کے بی کو معلوم تھی۔۔۔
کیسے؟
رب جانے تے او جانے۔۔۔
لہذا گھر سے پی ایم سی پہنچ کر۔۔
اکبر چوک پر پی سی او سےگھر فون ملایا جاتا۔۔۔
اور ایسے ملایا جاتا۔۔۔
جیسے افطاری سے پہلے گھڑی کی سوئی پر لوگوں کی نظریں ہوتی ہیں۔۔۔
یا کمرہ امتحان میں پیپر شروع ہونے سے پہلے سٹوڈنٹس کے کان اس آواز کا انتظار کرتے ہوئے کہ آپ پرچا شروع کر سکتے ہیں۔۔۔
بس ایسا ہی کچھ منظر ہوتا تھا پی سی او میں
کے بی فون ملا کر تیار۔۔۔
ایک ہاتھ سے کریڈل کان کو لگا۔۔
دوسرے سے فون منقطع کرنے کو تیار۔۔۔
وقت کم اور مقابلہ سخت۔۔۔۔
جیسے ہی کان میں آواز آئی ہیلو۔۔۔
ادھر سے آواز گئی۔۔۔
پہنچ گیا۔۔۔
اور۔۔۔۔
لائن کٹ گئ۔۔۔
تو جی یہ تھے ہمارے کے بی ۔۔۔
سارے شیخوں کے امام۔۔۔
لیکن ایک ناہنجار نے ان کی ساکھ ۔۔۔
راکھ میں ملا دی۔۔۔۔
وہ کیسے؟
سارے شیخوں کے امام۔۔۔
لیکن ایک ناہنجار نے ان کی ساکھ ۔۔۔
راکھ میں ملا دی۔۔۔۔
وہ کیسے؟
اس پر آنے سے پہلے اتنا جان لیں کہ وہ کتنے سخت قسم کے شیخ تھے ۔۔۔
کوئ ایسے ویسے نہیں۔۔۔
ہوسٹل میں جب لوگ باتھ روم میں بچے ہوئے صابن گھل گھل کر مرنے کیلئے پھینک جاتے تو وہ ہی تھے۔۔۔
جو ان کو سینے سے لگا کر۔۔۔۔۔
بڑے پیار سے۔۔۔۔
سب کو متحد کر کے ایک نئی قوت میں بدل دیتے۔۔۔
ایسا ہی وہ ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ بھی کرتے۔۔
آخری ہچکیاں لیتے سارے پیسٹ ایک پلیٹ میں یکجا کر کے نیا منجن ایجاد کیا جاتا۔۔۔
الغرض وہ پاکستان کی اکنامی میں بچت کر کے کروڑوں کا زر مبادلہ بچا لیتے۔۔۔
ایک دن بہت ہی آزردہ بیٹھے تھے۔۔۔
کسی نے وجہ پوچھیں تو نہایت روہانسی آواز میں انکشاف کیا کہ۔۔
کل ہمارے گھر دروازے کی گھنٹی بجی۔۔۔
چھوٹے بھائ نے دروازے کھولا۔۔
تو آگے سے ایک شیریں بیاں شخص نے دریافت فرمایا کہ بیٹا کیا آپ لوگوں کے پاس ٹی وی لائسنس ہے؟
اس پر چھوٹے نے نہایت بیوقوفی سے سب سچ کہ دیا کہ۔۔۔
نہیں ہمارے پاس نہیں ہے۔۔۔
اس دغا باز شیریں بیاں نے فوراٌ سے بیشتر پچاس روپے کی رسید کاٹی اور فیس وصول کر کے یہ گیا ۔۔۔۔ وہ گیا۔۔۔
اپنے کے بی محتاط بہت تھے۔۔۔
اور۔۔
آپ کو تو معلوم ہی ہے۔۔۔۔
مجھے ہمیشہ سے جمبو جیٹ کی رفتار پر اپنا ٹامی(موٹر سائیکل) اڑانے کی عادت تھی۔۔۔
ایک دن الائیڈ ہسپتال کے مین گیٹ سے کالج تک انھوں نے مجھ سے لفٹ لی۔۔۔
میں نے انھیں پیچھے بٹھا جب ٹامی کو اڑایا تو مجھے زندگی میں پہلی دفعہ ایسا لگا۔۔۔۔۔۔
جیسے ان کے بوجھ سے ٹامی کی سانسیں پھول سی گئی ہیں۔۔۔
ٹامی پر کمزوری کی وجہ سے ایک مسلسل لرزہ طاری ہے۔۔۔
میں نے اپنی اس حیرانگی کا اظہار ان سے کیا ۔۔۔۔
تو پیچھے سے میرے کان کے پاس کے بی کی پھٹی ہوئی سی آواز میں سرگوشی آئی۔۔۔
نہیں یار۔۔۔
تو اتنی تیز چلا رہا ہے۔۔۔
کہ۔۔۔
یہ تو میری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔۔۔
دھت تیرے کی۔۔
مجھے ہنسی بھی آے۔۔
اور یہ ڈر بھی لگے کہ کہیں ہمپٹی ڈمپٹی کا had a fall ہی نا ہو جائے۔۔۔
پھر ان کو تو بادشاہ کے گھوڑے بھی اکٹھا نا کر سکیں گے۔۔۔۔
وہ دن اور آج کا دن وہ کبھی میرے ساتھ ٹامی پر۔۔۔۔۔۔۔
آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔۔۔۔
ویسے اگر میں اور کے بی کالج کے دنوں میں ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے تو الف نون لگتے ۔۔۔
اور میں کم ازکم نون تو کہیں سے نہیں لگتا تھا۔۔۔
کم از کم اُس وقت۔۔۔
بلکہ مجھے دیکھ کر تو ویسے ہی لوگ ترس کھا کر کھانے کی دعوت دے دیتے تھے۔۔۔
کہ بیٹا کیا گھر میں کوئی کھانا نہیں پوچھتا!……
ایک دن۔۔۔
ویسے ہی۔۔۔۔
بیٹھے بیٹھے پتہ نہیں نعیم لمبو کو کیا سوجی۔۔۔
کہ کہنے لگا۔۔۔
ہکے بی۔۔۔
چٹے سے مقابلہ کرے گا کھانے میں۔۔۔
اگر تو جیتا تو تیرے میس کا پچھلا سارا بل وہ (نعیم) دے گا۔۔۔
اور اگر چٹا جیتا تو کے بی نے صرف اس دن کھانے کا بل اور چائے پلانی تھی۔۔۔۔
کے بی نے مجھے دیکھا اور بار بار دیکھا۔۔۔
پوری طرح سے ناپا تولہ۔۔۔
اور منہ پھاڑ کر۔۔۔
اور توند ہلا ہلا کر۔۔۔
فلک شگاف قہقہہ لگایا۔۔۔
کہنے لگا یہ ۔۔۔۔
یعنی کہ یہ۔۔۔۔
اشارہ میری طرف تھا۔۔۔
یہ کرے گا مقابلہ۔۔۔
ایک سے دوسری روٹی دو تو یہ بےہوش ہو جائے۔۔۔
ایک میری صحت۔۔
دوسرا میری رونی صورت۔۔
سونے پہ سہاگا۔۔
اتنی دھانسو آفر۔۔۔
فٹ سے مان گئے۔۔۔۔
واقعی کسی نے سچ کہا ہے۔۔۔
جب تک لالچ زندہ ہے۔۔۔
دھوکے باز بھوکا نہیں مرتا۔۔۔
کے بی نے یہ بھی نا سوچا کہ اتنا مہنگا سودا نعیم کیوں کر رہا ہے۔۔
بس ہاں کر دی۔۔۔
لو جی۔۔۔
ہم پہنچے ڈاکٹرز میس۔۔۔۔
اور بیٹھ کر کھانا آرڈر کیا۔۔۔
اس دن پکے تھے چاول۔۔۔
اور جس دن چاول پکے ہوں۔۔۔ایک پلیٹ کے بعد ھل من مزید۔۔
ھل من مزید۔۔۔
کر سکتے ہیں۔۔۔
یہ علحدہ بات ہے۔۔۔
بعد میں ہر دفعہ اتنی ہی سپلائی آتی ہے جیسے پراف کے بعد سپلی۔۔۔
لہذا ۔۔۔
ان کو سپلی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔۔۔۔
اب جیسے ہی کھانا سپلائی ہونا شروع ہوا۔۔۔
کے بی کے بائیں جانب ایک مکروہ قسم کا قہقہہ گونج اٹھا۔۔۔
کے بی نے حیرت سے گردن موڑی۔۔۔
نعیم کو شدید قسم کا ہنسی کا دورہ پڑا تھا۔۔۔۔
ابھی وہ اس اچانک حملے سے سنبھل بھی نا سکے تھے۔۔۔
کہ ان کے دائیں طرف بھی ایک خوفناک قہقہہ بلند ہوا۔۔۔
انھوں نے بوکھلا کر دیکھا۔۔
تو میں آنکھوں میں وحشت ناک چمک لئے۔۔۔۔
دانت نکال رہا تھا۔۔۔
کے بی کی وحشت دیدنی تھی۔۔۔
ان کو اپنے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوے۔۔۔
لیکن۔۔۔
کوئی نہیں کوئی نہیں۔۔۔۔
کہتے ہوئے انھوں نے اپنے سرپٹ بھاگتے دل کو تسلی دی ۔۔
اور کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا۔۔۔
کہ اچانک سپلی کی ایک دھاڑ نما گونج سے وہ لرزہ بر اندام رہ گئے۔۔۔
دہشت سے انھوں نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو میں road runner cartoon character
کی رفتار سے اپنی پلیٹ ختم کر چکا تھا۔۔۔
کے بی کے پھولے پھولے سے ہاتھ پاؤں مزید پھول کر کہا ہو گئے۔۔
انھوں نے تیزی تیزی سے اپنی پلیٹ ختم کرنی چاہی۔۔۔۔
لیکن اس وقت تک ان کا دایاں کان اور دماغ سپلی کی مسلسل پکار سے سُن سا ہو چکا تھا۔۔۔
جب تک وہ سپلی کی دو تین پلیٹیں ختم کرتے۔۔۔
میں ساتویں یا آٹھویں پلیٹ تک پہنچ چکا تھا۔۔۔
جی ہاں آپ نے درست پڑھا۔۔۔۔
ساتویں یا آٹھویں پلیٹ (سپلی والی)۔۔۔۔۔
ان کے دس ایکڑ کے پیٹ میں جگہ اور دل میں حوصلہ دونوں ہی ختم ہوتے جا رہے تھے۔۔۔
اب تو وہ اپنا کھانا پینا بھول کر۔۔۔
مسلسل میری اور ہوسٹل بوائے کی منت کر کر کے سپلی کی سپلائی منقطع کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔۔۔
اس سے پہلے کہ ان کے حواس مکمل جواب دیتے۔۔۔
انھوں نے ناک آؤٹ ہونے میں ہی عافیت جانی۔۔۔
اور یوں یہ ون سائڈڈ میچ اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔
تقریب تقسیم انعامات میں مین آف دی میچ کو ٹرافی یعنی چائے کا کپ دیا گیا مہمانِ خصوصی یعنی ہمپٹی ڈمپٹی کی جانب سے۔۔۔
خوشی سے بے حال تماشائیوں میں شامل تھے نعیم لمبو۔۔۔
اب یہ یاد رہے کہ مجھے اس زمانے میں چائے پسند نہیں تھی۔۔۔
اور چائے کے بی کی جان تھی۔۔۔
رگوں میں خون کی جگہ چائے گردش کرتی تھی۔۔۔
لیکن ٹرافی تو ٹرافی ہوتی ہے۔۔۔۔
اور پھر جب آپ کو معلوم ہو کہ اس دن شیخ الشیخ کے بی نے اپنے لئے چائے کا کپ نہیں منگوایا تھا۔۔۔
بس بہت حسرت سے دیکھتے رہے تھے۔۔۔
تو کفرانِ نعمت تو نہیں کرنا نا۔۔۔۔
ان کی اس عظیم قربانی کو سراہنا بھی تو تھا۔۔۔۔
اور۔۔۔
اب میں اتنا تو ظالم نہیں تھا کہ ان کو چائے کی دید سے ہی محروم کر دیتا۔۔۔۔
لہذا ان کے سامنے بیٹھ کر پورے بیس منٹ تک چائے پی۔۔۔
وہ بھی ایسے کہ کپ اپنے اور ان کے چہرے کے درمیان ۔۔۔۔
کہ ایک سانس میں اس کی خوشبو میں اپنے اندر اتارتا۔۔۔۔
بالکل ایسے جیسے ٹی وی اشتہار میں ماڈل ائر فریشنر کو محسوس کرتی ہے۔۔۔۔۔
اور دوسرے سانس کے بی بے صبری سے اپنے پھیپھڑوں میں کھینچتے۔۔۔
جیسے روزوں میں سگریٹ نوش دوسروں کے سگریٹ کے دھوئیں کو پھیپھڑوں میں اتار کر روح کی تسکین کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔۔۔۔
پھر میں ایک محسور کن انداز سے اد کھلی آنکھوں سے کپ اپنے لبوں سے لگاتا۔۔۔
ایک لمبی سی دلکش ہووووووووںںںںںں مدھم سے لہجے میں برآمد ہوتی اور اس کے بعد ایک لمبا سا سڑڑڑڑڑڑڑکااااااااا بلند ہوتا۔۔۔۔
بالکل ٹرک ڈرائیوروں کی طرح۔۔۔۔
جس کا اثر ہمپٹی کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اترتا محسوس ہوتا۔۔۔۔۔
اور ہر سڑڑڑڑکے کے ساتھ ان کے ہونٹ کپکپاتے ہوئے گول ہوتے اور ایک سسکی نما خشک چسکے سے وہ اپنے آپ کو بہلاتے۔۔۔۔
بس کیا کروں ۔۔۔
آپ کا بھائی بہت رحم دل ہے۔۔۔
اس لئے پورے بیس منٹ تک انھیں چائے کے ایک ایک گھونٹ سے اسی طرح لطف اندوز کروایا۔۔۔۔۔
اب کیا بتاؤں۔۔۔
شیخ کے بی کھانے کے اس بل کے حساب کو برابر کرنے کیلئے پورے دو مہینے گھر نہیں گئے۔۔۔
جیدوں ہولی جئ لیندا سپلی دا ناں۔۔۔