پروفیسر
بچپن سے سنتے آۓ تھے ۔۔۔۔
۔۔۔ پروفیسر ۔۔۔ بڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔۔۔
بال بکھرے ‘ شیو بڑھی ‘ موٹے شیشے ۔ عدسے جیسی ‘ عینک لگاۓ ۔۔۔
کچھ تقویت اس کو اشتیاق احمد ‘ ابن صفی ‘ مظہر کلیم وغیرہ کے ناولوں سے اور حسینہ معین کے ڈراموں سے بھی ملی ۔۔۔
سکول سے بڑھے تو کالج آیا ‘ کالج سے نکلے تو میڈیکل کالج
پروفیسر تو کئ ملے مگر ۔۔۔ ایسا پروفیسر تھرڈ ائیر تک نہ ملا
مگر فورتھ کا پہلا دن اور کیا دیکھتا ہوں ۔۔۔ افسانوں‘ ناولوں ‘ ڈراموں اور فلموں کا پروفیسر ہو بہو ۔۔۔
سمجھ تو گۓ ہونگے ‘ پروفیسر جانباز ۔۔۔ نام کی طرح
چلتے پھرتے پروفیسر ۔۔۔
بال ھمیشہ بکھرے اور اکثر کاریڈور میں منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے رہتے ۔۔۔۔
ایک دن پی ایم سی کے مشہور و معروف کاریڈور میں چلتے چلتے آہنی ستون سے ٹکرا گۓ ۔۔۔
اخلاق کے اتنے اعلیٰ درجے پر فائز تھے کہ فوراً بولے۔۔۔۔۔۔ “بیٹا معاف کرنا”
اگلے ہی دن ایک ڈیمانسٹریٹر سے ٹکراۓ تو بولے “کیا مصیبت ہے، برامدے کے درمیان میں ستون لگاۓ ہوۓ ہیں” ساتھ ہی ستون کی شان میں پنجابی میں ناقابل اشاعت قصیدہ گوئ بھی فرمائ ۔۔۔
بڑے انسان دوست تھے ۔۔۔ اپنے ملازم ‘ خصوصاً ڈرائیور کا بہت خیال کرتے تھے ۔۔۔
ایک دن اکبر آباد چوک میں اپنی لیب سے نکلے ۔۔ کار کی طرف بڑھے ۔۔۔ ڈرائیور جلدی سے گاڑی سے نکلنے لگا ۔۔۔
فوراً منع کردیا کہ میں خود دروازہ کھول لونگا ۔۔۔
بیٹھ کے ڈرائیور کو اشارہ کیا ” گاڑی چلا” ۔۔۔ ایک منٹ صبر ‘ گاڑی نہ چلی ۔۔۔ اب کے غصے سے بولے “اوۓ ۔۔۔تے دا پتر ‘ گڈی نئیں چلا ندا ؟ “
ڈرائیور بولا “سر جی ڈرائیونگ سیٹ تے تسی بیٹھے او”
خیر میں بھی کیا لے بیٹھا ۔۔۔
یہ قصہ ہے جب ھم نے فورتھ ائیر انٹلکچوئل کے نام سے جانباز صاحب کو فُل مٹھی میں کیا ہوا تھا ۔۔۔ساری کلاس بھی جیسے ادیب اور شاعر ‘ کارٹونسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا بن گئ ۔۔۔
چٹے نے بھی اُس زمانے میں ‘ پردہ ‘ کے عنوان سے آزاد نظم لکھی مگر ظالموں نے غیر اخلاقی قرار دے کہ اتروا دی ۔۔۔
بہرحال ‘ جانباز صاحب کی نظروں میں انتہائ شریف اور ادبی انسان بن گۓ ‘ بنتے بھی کیسے نہ ۔۔۔
روز انکو یقین دلاتے تھے کہ ان سے زیادہ علم دوست کوئ ہے ہی نہیں ۔۔۔ اور یہ میر’ غالب’ فیض اور فراز اُن کے آگے کیا بییچتے ہیں ۔۔۔
کچھ لڑکے اورلڑکیوں کے اکسانے پہ ‘ جانباز صاحب کے پاس فورتھ ائیر کا ٹرپ ارینج کروانے چلے گۓ ۔۔۔ اب وہ ارینج کیسے ہوا’ اور میرے ‘ غضنفر اور جانباز صاحب کے درمیان کیسے کیسے جملوں کا تبادلہ ہوا وہ پھر کبھی ۔۔۔
مجھے ان دنوں فورتھ ائیر انٹلکچوئل کی وجہ سے عینک لگی ہوئ تھی ۔۔۔ زیرو نمبر کی ‘ ذرا پڑھا لکھا نظر آنے کیلۓ ۔۔۔
جانباز صاحب سے میرے مذاکرات چل رہے تھے ۔۔۔ داؤد صاحب بھی کمرے میں موجود تھے ۔۔۔ پتہ نہیں جب بھی ھم کوئ سخت بات کرتے ‘ وہ زیر لب مسکرا دیتے ۔۔۔
جانباز صاحب ٹینشن میں کبھی اپنی عینک اتار کے میز پہ رکھتے ‘ کبھی پہن لیتے ۔۔۔ میں نے بھی ان کی نقل میں اپنی زیرو نمبر کی عینک میز پہ رکھ دی ۔۔۔
داؤد صاحب کچھ لینے باہر گۓ ۔۔۔
ان کے جانے کے بعد ‘ مزید سردی گرمی ہوگئ اور جانباز صاحب نے فرمایا “اچھا ہُن تے میرے مگروں لتھو ، سوموار نوں گل کراں گے” ۔۔۔
ھم کمرے سے نکلے اور کاریڈور میں ابھی سوٹا لگانے ہی لگے تھے کہ داؤد صاحب دوڑتے ہوۓ باہر آۓ ۔۔۔
میں ڈر گیا ۔۔۔ ہے ہی اتنے لمبے اور چوڑے تھے ۔۔۔ اگر دو ایک لگا دیتے تو ایمرجنسی تو ھم پہنچ ہی جاتے ۔۔۔ ساتھ ہی سوچا کہ یار ان کو کیسے پتہ لگا کہ ھم اندر کیا کیا کہہ کہ آۓ ہیں ‘پھر سوچا کہ بتا دیا ہوگا جانباز صاحب نے ۔۔۔
“اوۓ جانباز صاحب کتھے گۓ ؟”
میں بولا “سر اپنی گاڑی کی طرف گۓ ہیں” ۔۔۔
دوڑتے ہوۓ لپکے مگر جانباز صاحب تو یہ جا وہ جا ۔۔۔
میں نے پوچھا “سر خیر ہے؟” ۔۔۔
کہنے لگے “یہ عینک تمہاری ہے؟” ۔۔۔ میں نے لگا کہ دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا ‘ سمجھ گیا کہ میری نہیں ہے ۔۔۔ بولے “اچھا یہ نہیں تو یہ تمہاری ہے؟”
میں نے کہا “ھاں جی سر جی” ۔۔۔
کہنے لگے “مر گۓ، جانباز صاحب اپنی دور کی عینک چھوڑ گۓ ہیں اور میری نزدیک کی لگا کر چلے گۓ ہیں” ۔۔۔
میں بولا “تو کوئ بات نہیں ‘ انکے ہاس تو موبائل ہے” ۔۔۔ اس زمانے میں بڑے لوگوں کے پاس بڑا سا موٹرولا ہوا کرتا تھا ۔۔
بولے ۔۔۔ “او وی چھڈ گۓ نے” ۔۔۔
میں نے کہا “تو کوئ بات نہیں ۔۔ ڈرائیور ہے نا انکے ساتھ “۔۔۔
بولے ۔۔۔ “او وی چھڈ گۓ نے” ۔۔۔
اب مجھے سمجھ نہ آیا کہ پریشان کیسے نظر آؤں اور ہنسی کیسے چھپاؤں ۔۔۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے آخر ہوا کیا ؟
اگلے ہفتے پتا لگا کہ جانباز صاحب ‘ لاہور میں کینال روڈ پہ گدھا گاڑیوں والوں گالیاں دیتے پاۓ گۓ کیونکہ وہ ان کی گاڑی کی سمت آرہے تھے۔۔۔
یہ بھی سنا کہ کہہ رہے تھے “لاہور چہ سارے ای انے نیں ‘ مڑ مڑ میری ای گڈی چہ وجدے سن”
اس واقعہ کی سند ڈاکٹر نجف گل بھی دے سکتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ انہوں نے ہی سر کو بتایا تھا کہ وہ غلط چشمہ لے گۓ تھے ۔۔۔
بہرحال اچھے انسان تھے ‘ ٹرپ کے دنوں کی تلخ کلامی اور بدتمیزی کا ذکر وائیوا میں بالکل ہی نہیں کیا ۔۔۔ البتہ نجف صاحب سے پوچھتے رہے یار او ٹرپ والے منڈے نئیں آۓ ؟
میں اور غضنفر ‘ وائیوا میں داڑھی رکھ کے گۓ تھے ۔۔۔🤓😍🌹😂🙂🌷
فرخ نوید
😂😂😂
🤣🤣🤣🤣
👌👌👌👌👌ہائے ۔۔۔۔۔۔اتنے معصوم سے لگا کرتے تھے جا نباز صاحب ۔۔۔
کبھی ہمارے سامنے تو کوئی فالتو لفظ نہیں استعمال کیا
آ پ لوگوں میں ہی کوئی ایسا جادو تیری نظر ۔۔خوش بو تیرا بدن ۔۔۔۔۔۔۔
والی ادائیں تھیں ۔۔۔۔۔
جو اچھے بھلے معصوم اور شریف سے پروفیسر جانباز۔۔
سے ناقابل بیان ۔۔۔قصیدے
اگلوائی لیا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔
کاش
تھوڑا پیچھے جا کر ۔۔۔یہ منظر دوبارہ دیکھا جا سکتا۔۔۔ 🤓🤓😍😍😉😉کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ ۔۔۔۔
جنت میں ریوائنڈ کر کے ۔۔۔۔
سارا کچھ دیکھیں گے ۔۔۔۔ہمارا کام تو دعا کر نا ہی ہے۔۔۔۔
پوری مالک ۔۔خود ہی کر دے گا😜😍😂🤣