جانباز بمقابل چالباز ۔۔
اپنے دوست عثمان کی فرمائش پر۔۔
ڈرامے کا نام ۔۔۔
چالباز بمقابلہ جانباز ۔۔۔۔
تو جی فیصل اور کامی دو دوست تھے(اب بھی ہیں۔ماضی کا صیغہ سین کی ڈیمانڈ ہے)ــ
فیصل کا پتھالوجی کا وائیوا ایک دن پہلے ہو چکا تھا۔۔۔
کامی کو یہ چوٹی ابھی سر کرنی تھی۔
دل کی دھاڑس بندھانے کو خادم بھی ساتھ ہو لیا۔۔
کامی اپنے وائیوا کا انتظار کر رہا۔۔
اور میں جناب خوش گپیاں مار رہا۔۔
اب لڑکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ امتحان جیسا بھی ہوا ہو بس ہو جانا چاہیئے ۔۔
ان کیلیے اتنا ہی کافی ہے۔۔
وہ اس کے بعد اپنے آپ کو سکندر اعظم سمجھتے ہیں۔۔
فتح پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہے۔۔
اس کے برعکس ۔۔
لڑکیاں سو میں سے ایک سوال بھی غلط کر آئیں ۔۔
ان کی فکر دیکھنے لائق ہوتی ہے۔۔۔
خیر۔۔
آپ سب کو یاد ہو گا ۔۔
جانباز صاب کا انتقام لینے کا طریقہ بڑا انوکھا تھا۔۔
ایک ملزم کو اپنی جہازی سائز کی کرسی کی طرف بٹھا کر تفتیش کرتے تھے۔۔
اور دوسرا چور کمرے میں نکڑے لگا کر حکم ہوتا تھا دیوار کی طرف منہ کر لو۔۔(اور ایک ڈرائنگ بناو)ـ۔۔۔
کامی کا وائیوا تو ابھی دور تھا بیچ میں کچھ کالج کے خلیفے آ گئے۔۔
یہ کون تھے ۔۔
ان کی تعریف کرتا چلوں۔۔
ویسے تو تعریف کے لائق نہیں۔۔۔
جناب اس سے بڑھ کر کیا مثال ہو گی کہ پراف کا وائیوا چل رہا ہو اور ایک خفیہ اطلاع آے کہ ہاسٹل میں تازہ تازہ چرس کی کھیپ آئی ہے۔۔
تو اس ڈر سے کہ کہیں ختم ہی نہ ہو جاے وہ ادھر تشریف لے جائیں اور پیچھے ٹیچرز کو باقی لوگ بتا رہے ہوں کہ سر ذرا انتظار کر لیں۔۔۔
بلڈ دینے ہسپتال گیا ہے۔۔
بڑا نایاب خون ہے اسکا (چرس پازیٹو!!!)ـ
اور ایمرجنسی میں چاہیے۔۔۔
ہاں ایک اور مثال۔۔۔
پتھالوجی میں ایک سے ایکسٹرنل نے تین چار کیڑوں کا پوچھا۔۔
کہنے لگا سر نہیں سنا۔۔
وہ کہنے لگے اچھا تشریف لے جائیں۔۔
آگے سے ارشاد فرمایا۔۔
سر یہ تو نانصافی ہے۔
باقیوں کا اتنا لمبا وائیوا اور میرا بس اتنا ہی۔۔
میں تو نہیں جاتا۔۔
اس کے بعد۔۔
کوئی درجن بھر سوالوں کے جواب پتہ نہیں تھے۔۔
آخر تنگ آکر ایکسٹرنل کہنے لگے بھائ معاف کر دے۔۔
اچھا یہ بتا amoeba کا سنا ہے۔۔
فٹ سے جواب دیا ہاں جی سر۔۔۔
ایکسٹرنل کہنے لگے یاللہ تیرا شکر ہے۔۔
پھر پوچھا کہ اس سے کیا بیماری ہوتی ہے؟
ایک شان بے نیازی سے کہا سر ۔۔۔
یہ نہیں پتہ۔۔۔
اور پوچھیں۔۔
وہ کہنے لگے بھائ اور پوچھا تو میرا علم کم پڑ جاے گا۔۔
خیر۔۔
اب ان میں سے ایک کہنے لگا کہ مجھے تو ڈرائینگ نہیں آتی۔۔
ایک بے خودی میں ۔۔۔
خادم نے اپنی خدمات بلا معاوضہ پیش کر دیں۔۔
طے یہ پایا کہ جو بھی ڈراینگ آے گی میں بناوں گا اور کمرے میں کاغذ لے کر کھڑا ہو جاوں گا۔۔۔۔
جیسے سٹیڈیم میں لوگ پوسٹر لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔
یہ اس لیے ممکن تھا کہ اگر آپ کو یاد ہو جانباز صاب نے دو ایکڑ پر محیط احاطے پر بنے کمرے پر قابو کیا ہوا تھا اور کمرے میں قدم رکھتے ہی بائیں جانب ان کے سیکرٹری کا پائیں باغ تھا ۔۔
اب میں تین چار حضرات کو مدد بہم پہنچا چکا تو باری آئی جناب رانا صاب کی۔۔۔
فل نام رہنے دیں۔۔۔
اب میں پھر مصوری کر کے جھنڈا اٹھا کر کھڑا ہوں۔۔۔
لیکن محسوس ہوا کچھ گڑبڑ ہے۔۔۔
رانا صاب کو صحیح نظر نہیں آ رہا ۔۔
یا سمجھ نہیں آ رہا۔۔
الٰہی یہ تیرا پراسرا بندہ۔۔
کیا ماجرا ہو گیا ہے اس کے ساتھ۔۔۔
کیا اسے چرس نے ماؤف کر دیا ہے۔۔۔
کیا یہ اپنی عینک بھول آیا ہے۔۔
کیا اس نے یہ تصویر زندگی میں پہلی دفعہ دیکگی ہے۔۔۔
بس سمجھ لیں پورا سٹار پلس چل رہا ہے۔۔۔
اب ذرا رانا صاب کے سٹائل چیک کریں۔۔
پہلا: بازوں کا میز پر حلقہ بنا کر سر گود میں سُٹ کے (جیسے بندہ لیکچر میں سو جاتا تھا)۔۔
اس سٹائل میں تصویر دیکھی جا رہی ہے۔۔
میں سمجھا شاید اب آنکھیں نیچے اور تھوڑی اوپر کرنے سے الٹا نظر آ رہا ہے۔۔۔
میں نے پر چا الٹا کر دیا۔۔۔
لیکن بات نہیں بنی۔۔۔
دوسرا:۔۔ناراض بیوی سٹائل یعنی نامز میں سلام پھیرتے ہوے۔۔
کہ جسم ساکت سیدھا اور گردن کو الو کی طرح گھمانے کی کوشش ۔۔
نا جی پر کتھے۔۔
بات پھر نہیں بنی۔۔۔
اب کیا کریں۔۔
تیسرا سٹائل: ایسی دی تیسی سٹائل
یعنی جانباز صاب کر لو جو کرنا۔۔
اور پوری طرح میری طرف گھوم کر رخ روشن کے فل دیدار کراے اور تصویر کو گھوری کرائ
اب اس حالت میں بت بنے (وہ بھی ہونق سے) دیدے جتنے پھٹ سکتے تھے ۔۔
پھاڑ کر۔۔
ٹک ٹک دیدم۔۔
دم نہ کشیدم بنے بیٹھے ہیں۔۔۔
ادھر جانباز صاب کی ساتویں حس نے کوئ خطرے کا الارم بجایا اور وہ اٹھ کر دروازے کی طرف چل پڑے۔۔۔
بھئی خراج تحسین ہے رانا صاب پر۔۔۔
رانا صاحب بت بنے
اور میں دنیا مافیا سے بے خبر
ہم دونوں اک دوجے میں گم ہوں اور جانباز آ جاااااااےےےے۔۔۔
تو جی جانباز صاب کا اچانک نزول ہوا۔۔
اب یہ معلوم نہیں کہ ان کے من میں کیا سمایا تھا۔۔۔
پتا نہیں شاید رانا صاب کی پٹھیاں دیکھ کر شک ہوا تھا۔۔
یا شاید باتھ روم جانا تھا۔۔
یا کوئ اور مقصد۔۔۔
اب جیسے ہی وہ اپنے سیکرٹری کے پائیں باغ سے مڑے تو دو قدم پر میں کھڑا۔۔۔
انھوں نے مجھے اور میں نے انھیں دیکھا۔۔
دونوں ہی اپنی جگہ صم بکم کھڑے۔۔
وہ حیرت سے شل۔۔
اور میری خوف سے سٹی گم۔۔
ایسے لگا ۔
سمے کا یہ پل تھم سا گیا ہے
اور اک میں ہوں اور اک تم ہو۔۔
اور ہاں رانا صاب بھی تو ہیں۔۔۔
مزے کی بات یہ کہ وہ ابھی بھی اسی posture میں بت بنے تھے۔۔
انھیں ابھی بھی نہیں معلوم کہ جانباز اور میں ایک قیامت سے گزر رہے ہیں۔۔
(تب مجھے احساس ہوا کہ یہ سارا چرس کا اثر تھا)ــ
آخر میرے منہ سے نکلا مر گئے۔۔۔
اور جیسے طلسم ٹوٹ سا گیا۔۔۔
جانباز صاب نے چیتے کی پھرتی سے میری جانب ایک جست لگائی۔۔
کوئی لمحہ تھا کہ میرے بال ان کے پنجوں میں جکڑے جاتے۔۔
بس اللہ کو زندگی منظور تھی اور میں نے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔۔
باہر نکلتے ہوے اچپٹی نگاہ ڈالی تو رانا صاب ابھی بھی بت بنے ہیں۔۔
(لو کر لو گل۔۔اتنی توجہ کلاس میں دیتے تو ٹاپ کرتے)ـ۔
اور جانباز صاب اندھیرا اجالا کے جعفر حسین کی طرح ایک ہاتھ سے پتلون اور دوسرے سے ٹوپی کی جگہ موبائل سنبھالتے میرے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔۔۔
بیک گروانڈ میوزک میں جانباز صاب کی فصیح و بلیغ گالیاں ۔۔
ایسی ایسی کہ شاید MSF والوں کے بھی کان لال ہو جاتے۔۔۔
وہ بچپن میں ایک نظم تھی۔۔
چنا منا دو چوزے تھے۔۔
۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔ آخر میں
چنا منا ڈر کے بھاگے
چنا پیچھے منا آگے۔۔
بس کچھ ایسا ہی تھا۔
چالباز آگے۔۔
جانباز پیچھے۔۔۔
اب بیچارے اتنا دوڑ تو سکتے نہیں تھے۔۔
لہذا گالیوں سے خوب تعاقب کیا۔۔
اس دن معلوم ہوا کہ یہ گالیاں ہمارے کالج فیلوز نے ایجاد نہیں کئیں۔۔
یہ نسل در نسل ۔۔
سینہ با سینہ منتقل ہوتی ہیں۔۔۔
اس دن آدھے کالج نے جانباز صاب کو بین نما گلیاں دیتے سنا۔۔۔
بس پھر
کامی اور باقیوں کے ساتھ جو وائیوا میں ہوا وہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔