پبلک سروس کمیشن اور ھم۔۔۔۔
اس کلاس کے ایک اور گوہر نایاب کی تحریر پیش خدمت ھے۔جسے پڑھ کر آپ کی آنکھوں میں نمی ضرور آئے گی
نمی کی تین وجوہات ھو سکتی ھیں
۱۔بہت زیادہ ھنسی
۲۔رونا
۳زور لگا کر پڑھنے کی وجہ سے
نمی آنے کی صورت میں وجہ کے ساتھ feed backضرور دیجیے گا۔
ع ۔ نؤازش ھو گی
آج آپ سب کی خدمت میں پیش ھے۔۔۔۔۔۔ ۔ڈاکٹر سے وڈے ڈاکڈار نہ بن سکنے کی دکھی روئیداد
شروعات ھوئیں کیسے؟
اور دوستو کچھ یوں ھوا کہ ھم اپنی سکھی زندگی جی رھے تھے کہ اچانک PPSC نے1900 WMO کی سیٹس کا اشتہار دے دیا۔۔۔۔۔
ھمارے دل میں بھی ڈاکٹر صاحبہ بننے کا خواب انگڑائ لینے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ھم نے اسے تھپک تھپک کر سلا دیا۔
پھر ھوا یوں، کہ ھمارے کچھ خیر خواھوں نے ھمیں Apply کرنے پر مجبور کر دیا
ھم نےبتھیرا سمجھایا کہ اب اس بڑھاپےمیں ھم سرکار کی نوکری کیسے کریں گے۔۔۔۔۔۔لیکن آہ دوستوں کے اصرار پر ھم اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تیار ھو گئے۔
کریں گے کیا؟
اب اگلا مرحلہ انٹرویو کی تیاری کا تھا
کتابوں سے ناطہ توڑے صدیاں نہیں تو عشرے تو بیت ھی چکے تھے
لیکن انٹر نیٹ زندہ باد اور گائنی سے متعلقہ کچھ موضوعات کو پڑھنے میں کامیاب ھو ھی گئے ۔
اب اپلائی کیے کافی دن گزر گئے پر سرکار کی طرف سے انٹرويو کا بلاوا نہ آیا
دوستوں سے رجوع کیا تو جواب ملا کہ جمع خاطر رکھیے۔اگر سرکار درخواست جمع کر لے تو جلد یا بدیر بلاوا ضرور آتا ھے
پھر وہ دن۔۔۔
اور پھر ھمیں سرکار کی طرف سے بلاوہ آ ھی گیا۔ ھم تو خوشی سے پھولے نھیں سما رھے تھے۔ تمام دوستوں اور رشتے داروں سے دعا کی اپیل کی ۔ پہلے سوچا کہ کلاس گروپ میں اجتماعی دعا کروائیں لیکن پھر سوچا منتخب ھونے کے بعد سرپرائیز دیں گے۔۔۔۔۔۔
پر اس وقت تاریخ کہیں کونے میں کھڑی دندیاں نکال رھی تھی۔۔۔۔۔۔
انٹرويو کا ٹائم آٹھ بجے صبح کا تھا اور ھدایت کی گئ تھی کہ وقت پر نہ پہنچنے والے کو غیر حاضر تصور کیا جائے گا
تو جناب، انٹرویو کےدن ھم PPSC office پندرہ منٹ پہلے ھی پہنچ گئے۔
ایک دن پہلے مہمانوں کی آمد کی وجہ سے پڑھے گئے ٹاپک revise نہ کر سکے۔ سوچا تھا سیل فون سے دھرائ کر لیں گے۔ حیدر(شوہر نامدار) نے جب ڈراپ کیا تو بولے مجھے اندر سے پتا کر کے واپسی کا ٹائم بتانا ۔
رہ گئے ھم تنہا۔۔۔۔
اندر پہنچے تو ایک صاحب نے اشارے سے بلایآ (اتنا رعب) خیر چلے گئے۔
“مؤبائل فون دے دیں”۔۔۔۔
حیران و پریشان فون ان کے حوالے کیا اور ٹارچر سیل کے اندر چلے گئے۔
باھر ٹائم بتانے کا یاد ہی نہ رھا۔ واپس آکر ایک دفعہ پھر بولے کہ “صاحب ھمیں دھرائ کرنی ھے ۔ فون واپس کر دیں۔۔۔”۔
وہ کھڑہس بولے “پہلے پڑھ کر آنا تھا”۔۔۔۔
دل میں ان کو کو ستے اندر چل دئے۔
اندر جو خواتین تھیں سب کے ھمراہ کتب تھیں ۔خاموشی سے بیٹھ گئے۔attedence لگائی ۔اور باری کا انتظار کرنے لگے۔
برابر میں ایک ڈاکٹر آ کر بیٹھیں۔ تعارف ھوا تو پتا چلا کہ 96کی گریجویٹ ھیں ۔دلی اطمینان ھوا کہ ھم سے عمر رسیدہ خواتین بھی نوکری کی خواھاں ھیں۔
انتظار۔۔۔۔
طویل عرصہ گزر گیا۔ اڑھائ بجے کے قریب بلاوا آیا۔ سندوں کی جانچ پڑتال پہلے ھو چکی تھی۔
خیر بیٹھ بیٹھ کر ٹانگیں سن ھو چکی تھیں۔
بیرونی دنیا سے رابطہ بلکل منقطع تھا۔
صبح سے گروپ کا کوئ پیغام نہ پڑھنے کی وجہ سے زندگی بے رنگ اور پھیکی لگ رھی تھی۔
انٹرویو روم میں پہنچے۔۔۔۔۔۔۔ سلام عرض کیا۔
تین افراد کا پینل تھا۔
درمیان والی نشست پر جو صاحب بیٹھے تھے ان کے تیور انتہائ خطرناک لگ رھے تھے
جل تو جلال توآئی بلا کو ٹال تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورد کرتے کرسی پر بیٹھ گئے۔
مذاکرات۔۔
صاحب بولے۔۔۔ “آپ کو صبح سے چائے کا کسی نے نھیں پوچھا؟”
ھم بولے “نہیں”
موصوف بولے “بہت زیادتی ھے نا۔ ھے نا؟”
اصرار پر ھم نے کہا “جی سر ھم صبح سے بیٹھے ھیں”
اچانک ھی تیور تبدیل ھوئے اور بولے “ھم میں سے کوئی اٹھ کر گیا؟ ۔بتائیں نہ کوئی گیا؟”
“نو سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوری سر”
“آپ کو آتنے عرصے کے بعد کیسے خیال آیا job کا؟”
“سر پہلے بچے چھوٹے تھے”
“پھر ھم بیمار ھو گئے”۔ھماری منمناتی ھوئ آواز نکلی
بولے “اب بچے سمجھدار ھو گئے ھیں۔تو ھم آپ کو ساھیوال اپائنٹ کر دیں؟ چلی جائیں گی؟”
ھم گڑبڑا کر بولے “نہیں”
کہنے لگے “سرکار کی نوکری ھے۔ پورے پنجاب میں سیٹیں نکلی ھیں سرکار کہیں بھی بھیج سکتی ھے۔ لیکن آپ تو فیملی چھوڑ کر نہیں جا سکتیں”
“نہیں سر”
“اچھا شوہر کیا کرتے ہیں”
“بزنس”
“کونسا”
“پٹرول پمپ ھے”
“تو ان کی مدد کریں”
دکھ سے ھمارے ھونٹ بھنچے ھوئے تھے۔ اس کا پریشر آنکھوں پر آنے کی وجہ سے وہ پھٹ چکی تھیں اور ھم چشمِ تصور سے اپنے آپ کو گاڑیوں میں پٹرول ڈالتے ھوئے دیکھ رھے تھے
پھر صاحب دائیں طرف منہ گھما کر بولے۔
“آپ ان سے سوال پوچھیں”
وہ خاتون بولی “سٹیجز آف ڈلیوری سنائیں”
آتا تھا۔۔۔۔ پورے confidence سے سنآنے کی کوشش کی
لیکن آواز منہ سے نکلنے کو تیار ھی نھیں تھی۔
وھی صاحب بولے “20 سال پہلے پڑھا تھا اب آپ کو کیسے سنائیں”
اور ھمارے ھونٹ پھر بھینچ گئے
موصوف بولے “آپ جا سکتی ھیں”
پھر بولے “کچھ کہنا چاھیں گی؟”
ھم نے سر کو دائیں اور بائیں ھلایا اور باھر کی طرف لپکے
آنسو پلکوں پر ٹہرے تھے
دیکھیں یہ انتہائیں۔۔۔۔
معلوم تاریخ میں کسی نے ھماری اتنی بے عزتی نھیں کی تھی
باھر نکل کر موبائل لیا ھی تھا کہ حیدر کی کال آگئی۔
ھم نے پوچھا “آپ کو کیسے پتا کہ ھم انٹرویو دے چکے؟”
بولے “ھم صبح سے باھر ھی کھڑے ھیں”
ھائے
اتنی محبت دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔۔۔۔۔
گھر کو آئے
ھم خواہ مخواہ میں اپنے گھر کی بادشاھت چھوڑ کر سرکار کی نوکری کرنے چلے تھے
گھر پہنچے تو سب پر تھکاوٹ کا رعب ڈالتے ھوئے سونے چلے گئے
خواب میں کیا دیکھتے ھیں کہ
اوور آل اور diposible gloves پہنے لاھوری ناشتے کی ریڑھی پر کھڑے ھیں برابر میں قصوری فالودے کا ٹھیلا ھے
اور ھم آواز لگا رھے ھیں
اصل میں خواب میں ھمیں اپنے مستقبل کے متعلق اشارہ ھوا تھا اور اب ھمیں پوری چنوں کے بعد فالودے کی ریسیپی پر کام کرنا تھا (ایک نئے عزم کے ساتھ)
سب کی دعاؤں کی طالب ڈاکٹر رضوانہ حیدر جو وڈی ڈاکڈار نہ بن سکی۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارمنگ تبصرے۔۔۔۔
ٓٓAyesha Izzat:
جس نے فون رکھا تھا اور مانگنے پہ کہا تھا پہلے پڑھ کہ آتی ۔۔۔۔ اس کو کہنا تھا “ تینوں تکلیف “
جس نے چائے والی بات کی تھی کہ ہم میں سے کوئی اٹھ کہ گیا ؟؟؟ اُس کو کہنا تھا “ توں تا پاغل آں میں نئی “
اور یہ شیپ سوال کس نے کیا تھا ؟؟؟ کہ اتنے عرصے بعد کیسے خیال آیا ؟؟
کہنا تھا سر آپ پہلے چیپسٹر نہیں ہیں کافی چیپوز یہ سوال کر چُکی ہیں اور جواب یہ ہے کہ “ اپنے کم نال کم رکھ سوال کر بہتا ماما نا بن”
بچوں کی سمجھداری کا طعنہ دینے والے منحوس کہ منہ پہ اعوذوبااللہ پڑھ کہ پھونکنی تھی کی پتا وچوں شیطان دفعہ ہو جاندا
اور سرکاری نوکری پہ کہیں بھی بھیج دیں گے واہ ۔۔۔۔۔۔ اینا تو امریکہ دا پریزیڈنٹ ۔۔۔۔
اور ہاں پٹرول پمپ پہ مدد کا مشورہ دینے والے کو کہنا تھا
چُپ کر کہ بے اپنے مشورے اپنے کول رکھ ۔۔ اینی تو آپا زبیدہ
تم کس لئے سٹیجز آف ڈلوری بتانا چاہ رہی تھی اینی بڑی نئی سی دفع کرتی۔۔۔کہتی چولو جاؤ نہیں بتاتی کر لو جو کرنا
ہنہ فٹے منہ
Asmara Nadeem:
بے حد خوب صورت تحریر
👏👏👏👏
وڈّی ڈاکٹر تو تم ہو۔۔۔۔۔
ذرا بچّوں، میاں اور امّی سے پوچھنا کی تم کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی کسی پہ ثابت کرنے کی تمہیں ضرورت ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے آئندہ پی ایم کو اپنے ساتھ لے کے جانا
یا اگر خوش قسمتی سے میں پاکستان میں ہوئ تو مجھے بھی۔۔۔۔۔۔
چھکّے چھڑا دیں گے۔۔۔۔۔۔
کرلی اڑا دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور چھٹی کا دودھ یاد کروا دیں گے۔۔۔۔۔۔
اگر کسی نے کوئ ایسی ویسی بات کی تمہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ویسے اگر میں نے کوئ محاورہ غلط لکھا تو صحیح کر دینا)
کوشش جاری رکھو اگر دل کرے تو
ورنہ اپنی سلطنت پہ حکمرانی کرو ♥
اور پلیز فالودے کی ریسیپی لکھ مارو سب سے پہلے۔۔۔۔۔۔👌👌👌