ارادہ اور تقدیر
تقدیر کا لکھا ھے سب کچھ۔
تقدیر سے مراد ایک راستہ ھوتا ھے جس کا اختتام ایک رزلٹ پر ھوتا ھے۔ اس رزلٹ سے آگے کئی راستے نکلتے ھیں۔
انسان جو ارادہ کرکے عمل کرتا ھے تو وہ سینکڑوں راستوں میں سے ایک راستہ اس عمل کے نتیجے میں اختیار کر لیتا ھے اور اسکے راستے کی اسانیاں اور مشکلات اور آخری نتیجہ اسکی تقدیر ھوتی ھے۔ اگر وہ اس راستے کے دوران اپنا ارادہ اور عمل تبدیل کر لے تو وہ کسی دوسرے راستے پر چلے جائے گا اور اسکی تقدیر مختلف ھو گئی۔۔۔
یعنی ارادہ اور عمل سے اسباب بنتے ھیں ۔۔۔۔ اور اسباب سے رزلٹس۔۔
دعا انسان کے ارادہ اور عمل کو ذہنی استحکام دینے کا ذریعہ ھے۔ تاکہ وہ ثابت قدم رھے۔۔۔ مگر اگر ارادہ اور عمل ھی نہیں تو دعا تو مدد نہی کرتی
تقدیر کا انحصار ھے
Cause and effect then effect and cause….. this is a cycle of events.
The main principle observed and followed in Taqdeer is of randomness so that both believers and non believers observe equal level of arguments/evidence of presence and absence of God. This is structured in this way so that test of this world is fair for everyone
قرآن پاک میں سورت الانعام کی آیت نمبر 9 ھے
آیت) ” وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکاً لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلاً وَلَلَبَسْنَا عَلَیْْہِم مَّا یَلْبِسُونَ (9)
” اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب وہ مبتلا ہیں”
کہ اللہ فرشتے زمین پر اتارتا تو انکو انسانی شکل میں اتارتا اور لوگ پھر اسی شک میں رھتے کہ کیا یہ واقعی خدا کے فرشتے ھیں ۔ کیا واقعی خدا ھے۔
مطلب یہ کہ زمین کے واقعات اور انسانی مسائل کے اتارو چڑھاو پر اللہ کی سنت اپنے ھونے یا نا ھونے کے بارے میں شک میں ڈالنا ھے۔۔۔۔۔تاکہ ایمان بالغیب کی شرط پوری ھو سکے۔۔۔۔۔ تقدیر بھی اسلئے ارادے، اعمال، اسباب ، دعا سے منسلک ھے۔۔۔ یعنی انسان اپنی تقدیر کا زیادہ تر حصہ خود ڈیفائین کرتا ھے کیونکہ ارادہ، عمل ، دعا وغیرہ انسان کے اختیار میں ھے ۔