Eureka
EUREKA
یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مشہور یونانی سائینسدان آرشیمیدس نے کہے ۔۔
آپ سب کو وہ مشہور واقعہ تو یاد ہوگا۔۔
سب نے بچپن میں پڑھا۔۔۔
ہمارے پی ایم سی والے بھی کسی سے کم تو نہیں۔۔
اور اس چارمنگ سیسشن میں تو ایسے ایسے گوہر نایاب ہیں کے کیا کہنے۔۔
تو جی یہ داستان ہے ہمارے بھولو بھالو ٹوٹو مہاراج کی۔۔۔
کہانی ہے چھوٹی سی اور معصوم سی ۔۔۔
البتہ اس کی تمہید زیادہ لمبی ہے۔۔۔
اور وہ شروع ہوتی جب ٹوٹو کا چھوٹا بھائی(عاصم) انگلینڈ ٹوٹو کے پاس آیا۔۔۔
وہ شروع سے ہی ٹوٹو کے ساتھ رہا ۔۔
بیٹے کی مانند اور ٹوٹو نے بھی باپ کی طرح اسے پالا۔۔
پالا عجیب سا لگتا ہے کیونکہ جیسے ٹوٹو ہاسٹل میں دوسروں پر پلا اس کے بعد یہ کچھ عجیب سا جملہ ہے۔۔
خیر وہ کہانی پھر سہی۔۔
برادر آمد
تو۔۔
عاصم کا جہاز ایک سہانی صبح مانچسٹر ائرپورٹ لینڈ کیا۔۔
عاصم نے عرصہ دراز سے اپنے پتا اور ماتا کے مافق بھائی اور بھابھی کو نہیں دیکھا تھا۔۔
دل ان سے ملنے کو بیتاب تھا۔۔
اور اسی چکر میں سارے سفر میں نا اس نے کچھ کھایا پیا اور نا سویا۔۔
ایک جاں لیوا امیگریشن کے مرحلے سے گزر کر وہ باہر آیا اور چاروں جانب نگاہ دوڑائی۔۔
کوئی اپنا نظر نا آیا۔۔
بھئی رش بہت تھا نا۔۔
اس کے دل نے اس کو سمجھایا۔۔
اور شائد جزبات سے آنکھیں بھی نم تھیں۔۔
کچھ دیر گزری۔۔
کوئی نہ۔۔
ضرور میرے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہے ہیں۔۔
مجھے تنگ کرنے کو۔۔
لہذا ایک ایک کونا ۔۔
ایک ایک کھدرا چھان مارا۔۔
ایک ایک ستون کے۔۔
ایک ایک درز کے پیچھے دیکھ لیا۔۔
پھر بھی نہیں۔۔
شاید ٹریفک میں پھنس گئے ہوں۔۔
کچھ دیر اور گزر گئی۔۔
ادھر گھڑی کی سوئی کرے ٹک ٹک۔۔
ادھر دل کی دھڑکن کرے دھک دھک۔۔
اور ہر پل تیز سے تیز تر۔۔
یا اللہ خیر کچھ ہونا گیا ہو۔۔
یا اللہ ان کو سلامت رکھیں۔۔۔
تو اب پھر۔۔۔۔
اب تو اتنا زیادہ وقت گزر گیا کہ عاصم کے بال سفید ہونے لگے۔۔
اگر شادی ہوئی ہوتی تو بچے بڑے ہو گئے ہوتے۔۔۔
مصیبت یہ بھی کہ بچے کی جیب میں کوئی انگلستانی کرنسی نہیں۔۔۔
ہاتھ میں فون نہیں۔۔۔
کہ کچھ پتا چلا سکے۔۔
پہلی پہلی بار جو آیا تھا۔۔
آخر ائرپورٹ پر موجود ایک پاکستانی سے دس بدستہ درخواست کی کہ اگر فون عطا ہو تو وہ کچھ پتہ کرے۔۔۔
ٹوٹو کو فون کیا۔۔
اور بار بار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا۔۔۔
بیچارہ اور سخت گھبرا گیا۔۔۔
اس عظیم مہربان پاکستانی کو اب اس پر ترس آگیا۔۔
وہ جان گیا کہ بھائی کا خون پاونڈ کی گرمی سے سفید ہو گیا۔۔
آخر عاصم نے کانپتے ہاتھوں گھر کے نمبر پر فون کیا۔۔۔
آگے سے فارینہ کی آواز سن کر حوصلہ ہوا۔۔
ادھر فارینہ نے عاصم کی بپتا سنی تو ڈانٹ کر کہا کہ۔۔۔
“تم تو اگلے ہفتے آنے والے تھے۔۔۔”
اس نے گڑگڑا کر ۔۔
قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ نہیں صدیوں سے یہی تاریخ تھی۔۔۔
اب فارینہ کے ہاتھ پیر پھول گئے ۔۔
جلدی جلدی ٹوٹو کو فون کیا۔۔
(پتہ نہیں ٹوٹو کو کیسے معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ فارینہ ہے)ــ
پہلی گھنٹی پر ہی فون اٹھا لیا گیا۔۔
سب سننے کے بعد ایک بلا کی خود اعتمادی سے جواب آیا کہ “وہ یقینا کوئی بہروپیا ہے۔۔۔۔۔۔عاصم تو اگلے ہفتے ہی آے گا۔۔۔”
خیر فارینہ کے پر زور اصرار پر اپنی ڈائری چیک کی تو ۔۔۔
نتیجہ آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔
اب مچی تھرتلی ۔۔
کیونکہ ڈرائیونگ دونوں کو ہی نہیں آتی تھی۔۔۔
(اس واقعے کے بعد دنیا کی بے اعتباری کی وجہ سے فارینہ نے ڈرائیونگ سیکھیـ ۔۔ ایک کریش کورس کر کے)ـ
یہ اب علحدہ قصہ ہے کہ کیسے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر وہ عاصم کو ائرپورٹ کے ظالم پنجوں سے چھڑا کر لائی۔۔۔
بیچارے کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔۔
وہیں پر صافہ ڈال کر بیٹھ رہا تھا۔۔
فارینہ عقلمند تھی۔
ٹیکسی کروا کر گئی
وقت کا پہیہ
پھر وقت کا پہیہ چلتا رہا ۔۔۔
وقت نے آہستہ آہستہ عاصم کے دل سے اس زخم کو مندمل کر دیا۔۔۔
لیکن احتیاطً اس نے بھی ڈرائیونگ سیکھ لی۔۔
کہ کیا پتہ آگے پھر۔۔۔
بندہ کم ازکم گاڑی کرائے پر لے کر ہی آجاتا ہے ایسی صورت میں۔۔
منظر بدلا
اور پھر ہوا کچھ یوں کہ اب فارینہ اپنے پیکے گئی۔۔
یعنی فیصل آباد۔۔
پیچھے ٹوٹو کی وہی حالت جو مجنوں کی لیلی کے بغیر۔۔۔
نا کسی کام میں دل لگے۔۔
(ورنہ ہسپتال آدھے سے زیادہ تو موصوف نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔۔
ڈیوٹی نا بھی ہو تو تین چار گھنٹے ویسے ہی کام کر آتا ہے)۔۔۔۔
نا کسی دوست سے بات میں مزا نہ آے۔۔
شکر ہے ڈرائیونگ نہیں آتی تھی ورنہ کتنے ایکسیڈنٹ ہوتے۔۔
(یہ ایک علحدہ داستان ہے۔۔ ایکسیڈنٹوں والی)ـ۔۔
آتے جاتے عاصم کو پھٹکار پڑتی رہتی تھی۔۔
ایویں ہی بس۔۔
جو سامنے آ گیا۔۔
اس کا کچھ نا کچھ قصور تو ضرور ہو گا۔۔۔
لہذا ایسے ہی حفظ ماتقدم جھاڑ پلا دی۔۔
وہ دن
ایسا ہی ایک دن تھا۔۔
عاصم چھٹی والے دن خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا کہ اچانک ایک دھماکے سے کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔
عاصم نے پوری کوشش کی کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ سکے۔۔
لیکن نیند کے آگے بڑے بڑے ہار گئے ایک بچہ کیا چیز ہے۔۔
بس اتنا ہی جان پایا کہ ایک دیو قامت ہیولا داخل ہوا ہے۔۔
آخر جب تک تشریف پر پاوں مبارک کے نشان ثبت نا ہوے اس وقت تک آنکھیں نا کھل سکیں۔۔
پہلےتو یہی سمجھا کہ روزانہ کی طرح کوئی سیاپا ہے۔۔
لیکن پھر ٹوٹو کے چہرے پر ایک خوش نما سا ہیجان نظر آیا۔۔
آج تو ایسا روپ چڑھا تھا کہ نظر نہیں ٹک رہی تھی۔۔
چہرا جذبات کی شدت سے سرخ اور بدن کانپے جا رہا تھا۔۔۔
یاللہ خیر کہیں بخار تو نہیں چڑھا لیا۔۔
دم درود کر کے پوچھا تو منہ سے عجیب سی کلکاریاں ہی نکلیں۔۔۔
(قارئین وسامعین یہ واقعہ بالکل سچ ہے۔۔
منظر نگاری اس لیے ضروری ہے کہ اختتام پر آپ کو سورج کی طرح روشن سچ جھوٹ نا معلوم ہو)
آخر بڑی تگ ودو کے بعد پتہ لگا کہ آج فارینہ آرہی ہے۔۔
عاصم کی سانس میں سانس آئی۔۔
کھودا پہاڑ نکلا۔۔۔۔۔۔
(اب دوبدو گفتگو ملاحظہ ہو)
عاصم: “او بھائی تو اس میں بونترنے کی کیا ضرورت ہے؟”
ٹوٹو: “ہیں۔۔او فارینہ آرہی ہے۔۔”
عاصم: “تو۔۔۔”
ٹوٹو: “تو کیا۔۔۔۔ چل تیار ہو گاڑی نکال۔۔”
عاصم: “پر ابھی تو بہت ٹائم ہے۔۔”
ٹوٹو: “نہیں رسک نہیں لینا۔۔اگر ٹریفک جام ہوئی۔۔”
(قارئین فرق محسوس کر رہے ہوں گے۔۔۔)
عاصم: “او بھائی ڈرائیونگ سے چالیس منٹ کاراستہ ہے۔۔۔۔ ابھی تو چار گھنٹے ہیں۔۔”
ٹوٹو: “بس کہہ دیا تو کہہ دیا۔۔ابھی کے ابھی۔۔”
چاروناچار عاصم تیار ہوا
اور ادھر ٹوٹو کو تو جیسے آج پنکھے لگے تھے۔۔۔
اب پھر دونوں کی ون ٹو ون گفتگو ہوئی۔۔
ٹوٹو: “چلو چلیں۔۔”
عاصم: “۔ہاں چلو۔۔”
ٹوٹو: “چلو۔۔”
عاصم: “ٹھیک ہے چلو۔۔۔۔۔۔”
ٹوٹو: “چلو۔۔”
عاصم: “ہاں چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔” (عاصم اب کچھ کنفیوز)
ٹوٹو: “چل نا۔۔”
عاصم: “ہیں، تو کیا تو نہیں جا رہا۔۔؟”
ٹوٹو: “میں کیوں نہیں جا رہا۔۔؟”
عاصم: “تو پھر ایسے۔۔؟”
ٹوٹو: “ایسے کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
EUREKA EUREKA EUREKA
آپ سب کو معلوم تو ہو گیا ہو گا۔۔
لیکن یہ آدھا EUREKA تھا۔۔
تو ہوا یوں کہ ٹوٹو مہاراج اس افرا تفری میں شرٹ پہننا بھول گئے تھے اور صرف پتلون اور بوٹ جراب پہن کر ائیر پورٹ جا رہے تھے۔۔
اور عاصم سوچ رہا تھا کہ یہ گوروں کا رنگ چڑھا ہے یا واقعی مجنوں بالکل ہی دیوانہ ہے۔۔
خواتین وحضرات اس کہانی کے تمام کردار اصلی ہیں اور تصدیق کیلیے موجود بھی۔۔
ویسے کیا کسی اور کے میاں نے کبھی ایسا سواگت اپنی بیگم کا کیا۔۔؟
ایسے ہی تو نہیں ٹوٹو مہاراج۔۔۔۔۔۔۔۔!
Comments
بہت خوب
آغاز سے ھی معلوم ھو رھا کہ کہانی مزیدار ھو گی
😂😂
اب روزہ کھلنے کے بعد تو ایسے کمنٹ ہی آئیں گے
عاصم بھائ ایک نیا کردار ھیں ہمارے لیے
یقینا نیک انسان ھونگے
بہت انہماک سے کہانی پڑھ دھے تھے کہ اچانک ایک لفظ پر رک گئے
یقین نہ آئے کہ فیصل نے فارینہ اور ایاز بھائ کی شان میں یہ گستاخی کی ھے۔اگر
یہ خوبی یا برائ ان میں موجود ھے بھی تو پردہ ڈالنا چاھیے تھا نہ کہ یوں آشکار کیا جائے
اصل میں ھمیں غلط فہمی ھوئی
جملہ تھا(ماتا پتا کے مافق بھائ اور بھابھی)
ھم سمجھے(ماتا پتا کے منافق بھائی اور بھابھی)
جب غلط فہمی دور ھوئ تو دوبارہ پڑھا
باقی کی کہانی سسپنس اور ایکشن(ابھی تو نھیں آیا)
سے بھر پور ھے۔👌👌
اگلی قسط کا انتظار رھے گا
گزشتہ سے پیوستہ
چھا گئے فیصل بھائی
👌👌
کمال کی منظر نگاری ھے
عاصم بھائ کی جگہ اپنے آپ کو محسوس کرتے ھوئے انتہائی دکھ کی کیفیت طاری ھوگئی
آہ بیچارہ اکیلا پردیسی بھائی
غلط فہمی کے ھاتھوں مارا گیا
جو جو قیامتیں اس پر گزری اور جن انتہائ خیالات سے گذرا
اسکی بہترین منظر نگاری کی گئ
ھائے
ھمیں تو اپنا وزٹ خطرے میں نظر آ رھا۔کتنی محبت سے فارینہ نے ھمیں اور تمام سکھیوں کو دعوت دی تھی(پتا نہیں اسے یاد بھی ھے یا نہیں )
پر جے اوتھے پہنچ کے ساڈے نال وی ایس طرح ھویاتے کی کراں گے
پر جے پی ایم نال ھوئی تے کوئ نہ کوئ حل کڈھ ھی لوے گی
بہرحال تبصرہ نگاری کو وھیں سے شروع کرتے ھیں جہاں سے سلسلہ منقطع ھوا تھا
بلآخر فارینہ کو یقین آیا
تھر تھلی مچی اور
بھائ گھر پہنچ گیا
اب کہانی کے اگلے حصے میں مصنف نے تقابل پیش کیاھے
بھائ vs بیوی
اور ایاز بھائ کا حقیقت پسندانہ فیصلہ ۔بیوی جیت گئ(کامیاب ازدواجی زندگی کا سنہرا اصول )
EUREKA
دی سمجھ نہیں لگی google کیا اور پھر جملے کو سمجھ کر لطف اندوذ ھوئے آپ بھی ملاحظہ کیجیے
😁😁😂🤣😂😆
it was a cry of joy or satisfaction when younger brother saw the elder one (without shirt)in hurry to reach his beloved wife(farina tussi great o)😍😍😍
تے فیصل بھائ تسی مہا گریٹ او
👏👏👏👏👏👏👏👏
congrats on such nice picturization of an unforgetable memory
😂😂😂😂😂😂😂
بہت اعلیٰ، بہترین، بے حد جاندار
سر درد آخری قسط پڑھتے ہی غائب۔۔۔۔
ویسے ایاز بھائ شروع سے ہی معصوم معصوم سے لگتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارینہ کا انتخاب بے حد شاندار۔۔۔۔۔
فارینہ زندہ باد
اللّہُ اکبر
فیصل بھائ کی منظر نگاری کا تو جو لطف آیا سو آیا۔۔۔۔۔
آپ کی تبصرہ نگاری پڑھ کے لطف دوبالا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔
واہ واہ کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی بھائ ورسز بیوی
اور۔۔۔۔
EUREKA
کی جو ڈیفینیشن کی ہے چھوٹے بھائ کی نظر سے۔۔۔۔
سبحان اللّہ۔۔۔۔۔۔
وہ فیصل بھائ کیا کہتے ہیں۔۔۔۔
چھا چھو گئی ہیں آپ ۔۔۔۔۔
👌👌👌👏👏👏
Asslamoalakium, Faisal ap pmc ky shafq ur rehman nikly, likhiay mazeed likhiay, bohat khoobsurat tanzo mizaah,
Manzarkhashi mein namra Ahmed haar gai,wah
بہت اعلی فیصل 👍🏻 ۔۔۔۔دن بدن تمہاری تحریروں میں روانگی اور پختگی آتی جا رہی ہے
پڑھتے پڑھتے انسان خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے
ویل ڈن 👏🏻👏🏻👏🏻👏🏻
ویسے رضوانہ کی تبصرہ نگاری بھی کمال تھی ۔۔۔۔
مان گئے بھیا یہ ایک نہایت ٹیلینٹڈ کلاس کے ٹیلنٹڈ ترین لوگ ہیں ۔۔۔ ما شا اللہ ۔۔۔۔