ڈبل سواری
ایک ہوتا ہے چرسی۔۔۔
ایک ہوتا ہے بھنگی۔۔۔
ایک ہوتا ہے نشئی۔۔۔
ان سب کا سردار ہے چائے والا۔۔۔۔ ھاں بھئی چائے والا۔۔۔
اور یہ بیماری پاکستان میں عام اور ہاسٹلائیڈ میں خاص طور پر بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔۔۔
جیسے پٹھان کی نسوار ۔۔۔
ویسے ہاسٹلائیڈ کی چاے۔۔
کھانا بند کر دو۔۔پرواہ نہیں ۔۔
کربلا بنا دو۔۔
پانی نہیں ۔۔۔ تو نہ سہی۔۔
یا حسین زندہ باد۔۔۔
پر کبھی غلطی سے بھی نہ کوئی سوچے کہ چائے نہیں ملے گی۔۔۔
اجی۔۔
تیسری جنگِ عظیم کی بنیاد ۔۔
لکھ لیں یہ چائے ہی ہو گی۔۔۔
فوجیں چائے کے باغات پر قبضے کیلیئے کشتوں کے پشتے لگائیں گی۔۔۔
تو بس چالباز کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔۔
ہاں سند رہے کہ چالباز چائے نہیں پیتا تھا۔۔۔
صدیوں پرانا قصہ ہے۔۔
ہم لوگ فائینل پراف دے رہے تھے۔۔۔
کامی کا فون آیا ۔۔۔۔
یار امتحان کی بہت ٹینشن ہے۔۔ کچھ پڑھا ہی نہیں جا رہا۔۔
ہمت بندھانے کو آ جا۔۔
جو حکم۔۔۔
جناب ٹامی کو ماری لات اور لشتم پشتم ہاسٹل پہنچ گئے۔۔۔
دوپہر کا وقت۔۔
ہو کا عالم۔۔۔
فضا میں کچھ بے چینی سی تھی۔۔
کامی بار بار چائے کا تھرماس کھول کر چائے معدے میں انڈیل رہا تھا۔۔۔
بھائ اس کا پیٹرول جو تھا۔۔
اتنے میں کچھ دوست کمرے میں داخل ہوئے اور کہا “یار ہماری چائے ختم ہے اور کینٹین بند ہے”۔۔
“چائے تو دے”۔۔
کامی نے یہ سنا تو لپک کر تھرماس اٹھایا۔۔
چائے کپ میں ڈالی۔۔
اور فٹافٹ اپنے معدے میں ڈال کر اس کا کریاکرم کر دیا۔۔۔
اب کیا ہوا کہ پوری کی پوری جنج ہی چائے کی طلب میں وہاں پہنچ گئی۔۔۔
ایک احتجاج بلند ہوا کہ بغیر چائے کے پڑھائی نامنظور نامنظور ۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔
کامی کو سزا دی گئی کہ وہ ہوٹل سے چائے لے کر آئے کیونکہ اس نے آخری کپ پیا ہے۔۔۔
کامی کو موٹر سائیکل چلانا نہیں آتا۔۔
لہذا میرا ترلا شروع ہوا کہ مجھے لے کر چل نکڑ والے ہوٹل پر۔۔۔
سب سے چائے کے نام ہر چندہ جمع کیا گیا اور سب نے اس نیک کام میں ناک بھوں چڑھا کر حصہ لیا۔۔۔
میں سخت نالاں تھا۔۔۔
وجہ۔۔۔
جناب اس وقت ڈبل سواری پر پابندی تھی۔۔۔
لیکن مجھے کہا گیا۔۔
Don’t underestimate the power of common MSF jawan..
کوئی پولیس والا ہمت تو کرے سامنے آنے کی۔۔۔
خیر جی میں دوستی واسطے ہو گیا تیار۔۔
لپک جھپک کر میں اور کامی پہنچے ہوٹل۔۔
چائے کے تھرماس بھروائے اور واپس روانہ ہوے۔۔۔
ہاسٹل کے گیٹ پر ۔۔
وائے ری قسمت ۔۔۔
دو پولیس والے اپنی موٹر سائیکل پر ٹکر گئے۔۔۔
اب۔۔۔۔
منظر کچھ یوں کہ ۔۔۔
سامنے پولیس والے۔۔۔
وہ بھی دو۔۔۔
ہم بھی دو۔۔۔
ان کی آنکھوں میں ایسی چمک جو بھوکے درندے کی آنکھوں میں شکار دیکھ کر آتی ہے۔۔۔
ادھر میرا حوصلہ پہاڑ جیسا۔۔۔
انھیں کیا پتا کہ انھوں نے اپنی موت کو آواز دی ہے۔۔۔
میرے پیچھے ۔۔ Power of common MSF jawan
تو پھر ڈر کس بات کا؟
ارادے جن کے بلند ہوں اور چائے جن کی رگوں میں ہو
اور MSF جن کی پشت پر ہو
انھیں کون شکست دے سکتا ہے۔۔۔
میں نے ٹامی کو تھپکی دے کر روکا
اور جب پولیس والے نے کہا چلو تھانے۔۔۔
تو میں نے اسے جناب کامی صاب سے رجوع کرنے کو کہا۔۔۔
اس وقت میں نے غور کیا ۔۔۔
کہ نصیب دشمناں کامی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
کچھ مرجھایا ہوا سا لگ رہا ہے۔۔۔
کہیں چائے کی کمی کا اثر تو نہیں۔۔۔
ہاں ہاں یقیناً یہی ہو گا۔۔۔
مجھے اپنے رفیق کی فکر دامن گیر ہوئی۔۔۔
ادھر پولیس والے تھے کہ سر پر چڑھے آ رہے تھے۔۔۔
خیر ایک پولیس والا میرے پیچھے ٹامی پر بیٹھا۔۔۔
اور دوسرے نے کامی کو (تھرماس سمیت) اپنے جگے پر بیٹھایا۔۔
اور چلے تھانے۔۔۔
اب جا کر میرے بھی چودہ طبق روشن ہوئے کہ کل ہے پیپر اور آج ہم تھانے کی انسپیکشن پر جا رہے ہیں۔۔۔۔
وہ بھی فل پروٹوکول کے ساتھ۔۔۔
یہ سوچ کر ہی ٹامی کی باگیں میرے ہاتھ میں ڈھیلی ہو گئیں۔۔۔
ٹامی بھی سمجھ گیا گڑبڑ ہے۔۔۔
اس کی رفتار بھی دھیمی ہو گئی اور چال لڑکھڑا سی گئی۔۔۔
وقت گزرتا جا رہا تھا۔۔۔
راستہ کٹتا جا رہا تھا۔۔۔
تھانہ کسی بھی لمحے آیا چاہتا تھا۔۔۔۔
میں نے ہمت کی اور مذاکرات کا ڈول ڈالا۔۔۔
اب آپ سے کیا چھپانا۔۔۔
سیدھا سیدھا رشوت آفر کی۔۔۔
کچھ بحث۔۔
کچھ ترلوں کے بعد آخرکار بات پچاس روپے پر طے پا گئی۔۔۔
میں تو سمجھا کہ میں نے دنیا فتح کر لی۔۔۔
ایک فخر سے میں نے کامی کو ہاتھ سے پانچ انگلیوں کا اشارہ کیا کہ پچاس میں ڈن۔۔۔۔
پچاس روپے 1998 میں ایک مناسب رشوت تھی۔۔
نہ کم نہ زیادہ۔۔۔
I was really proud of myself ..
ادھر کامی نے ایک حقارت بھری نظر میرے اشارے پر ڈالی اور انگلیوں سے تین کا اشارہ کیا۔۔۔
کیااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔
یعنی صرف تیس روپے۔۔۔
کمال ہے بھی کمال ہے۔۔۔
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔۔
I was really impressed …
جناب پھر حیرت کے پہاڑ تو ٹوٹے جب انھوں نے ایک ہوٹل پر ہمیں روکا اور اپنے پلے سے پہلے ہمیں چائے پلائی ۔۔۔
پھر اس کے بعد ۔۔۔
پولیس پروٹوکول میں (یعنی وہی ترتیب۔۔ دو دو کی) ہمیں ہاسٹل تک چھوڑ کر بھی آئے۔۔۔
جب ہم ہاسٹل پہنچے تو سب خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔۔۔
کچھ کہے سنے بغیر تھرماس چھینا اور چائے سے اپنی تروٹک دور کی۔۔
“تروٹک”۔۔۔۔۔۔ نشہ ٹوٹنے کو کہتے ہیں۔۔
پھر گلے شکوے ہوئے۔۔
میں نے فخر سے کامی کی negotiation skills کا ذکر کیا۔۔
کہ کیسے تیس روپے میں ہم جان بچا کر آگئے۔۔
اور حد تو یہ کہ پولسیوں نے ہمیں چائے بھی پلائی۔۔۔
سب ششدر سے رہ گئے۔۔
اور کامی کی طرف گردنیں مڑ گئیں۔۔۔
کامی ابھی بھی زرد چہرے کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔۔۔
آخر میں جو اس نے کہا اس پر ایک قہقہوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔۔۔
کہنے لگا کہ یار۔۔
جب تو نے پانچ انگلیوں کا اشارہ کیا تو میں سمجھا پانچ سو۔۔۔
میں تو اس کو تین سو دے آیا ہوں۔۔۔
بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔
آدھی رقم کامی کو دینے کے بعد وہ مہینہ بڑی مشکل سے گزرا۔۔۔
So, moral of the story is
“Dont underestimate the power of common MSF jawan”
ہیں جی۔۔۔۔