دابو۔۔۔۔
شیخ سپیریر (superior)کا مشہور قول ہے۔۔
دابو کو کسی نام سے بھی پکارو وہ دابو ہی کہلاے گا۔۔
یعنی۔۔
جو مزا دابو میں ہے وہ کسی اور میں کہاں۔۔
دابو دابو کے مہان مرتبہ پر فائز ہونے سے پہلے ابا جی کہلاتے تھے۔۔
اور اس سے پہلے کامی (kk)بھائی۔۔
یہ ترقی کی منازل انھوں نے بتدریج اور کافی محنت وشاقہ کے بعد حاصل کیے۔۔
کالج لائف میں کامی بھای۔۔
ہاوس جاب میں اباجی
اور مانو (ٹوٹو اور فارینہ کی بیٹی اور گروپ کی مشترکہ پہلوٹھی کی اولاد) نے اپنے بچپن میں انھیں دابو کے اعلی مقام پر فائز کر دیا۔۔
یعنی دادا ابو ۔۔
ابا جی کا رتبہ انہیں عطا کر نا بہت اہم تھا کہ ہاوس جاب کے کچھ کھلنڈرے لوگوں پر نگاہ رکھنا بہت ضروری تھا۔۔
جیسے مابدولت جو کھانے کی مہر ہاتھ میں لیے گھومتے تھے اور جہاں کہیں کھانا نظر آیا چاہے جس کا بھی اور جیسا بھی اس پر اپنی مہر مبارک ثبت کر دی۔۔
اور اگر میٹھا ہے تو بس پوچھئں ہی نا۔۔
خصوصا اس حوالے سے دو چھوٹے واقعات یاد آگئے۔۔
میٹھا دانت
ایک تو یہ کہ ٹرائفل کا دو کلو کا باؤل فقط ساڑھے چار منٹ میں خالی اور عمر جو وارڈ میں ایک مریض کی ڈسچارج سمری بنا رہا تھا (آپ سب واقف ہی ہیں کہ اس میں ہاوس آفیسر دو منٹ سے زیادہ لگانا اپنی تو ہین سمجھتے تھے۔۔ عمر ذرا سینٹی ہے تو اس نے چار منٹ لگاے)ــ
بھنک اسے پڑ چکی تھی کہ ٹرائفل ڈاکٹرز آفس میں آ چکا ہے۔۔
لیکن دو کلو ۔۔
کافی ہے۔۔۔
یہی تسلی تھی۔۔
پر دل کو دھڑکا بھی لگا تھا۔۔۔
لہذا اگلے آدھے منٹ میں بھاگم بھاگ کمرے تک پہنچا اور جیسے ہی دروازہ کھولا ۔۔
تو بیچارہ صدمے۔۔
غصہ
اور احساس محرومی کے ملغوبہ سے ششدر رہ گیا۔۔۔
دل کے ارمان آنسووں میں بہہ گئے۔۔
ہم ٹرائفل کے ہوتے ہوے بھی محروم رہ گئے۔۔۔
منظر کچھ ایسا تھا کہ میں صوفہ پر موجود اور ٹرائفل کا سیکنڈ لاسٹ چمچ میرے منہ میں۔۔
بس حسرت ہی رہ گئی کہ پتہ نہیں آخری چمچ کتنا مزیدار ہو گا جو عمر نے مجھ سے چھین کر پی لیا۔۔
عمر کےآنسو ہی اتنے تھے کہ بس ٹرائفل کا انجام بہنے کی صورت ہوا۔۔
کیا کریں دوست کی خاطر قربانی دی تھی۔۔
عمر کو ابھی بھی وہ خلوص یاد ہو گا۔۔۔
اور دوسرا۔۔
تھوک حرام
ہاوس جاب کے اولین دن تھے۔۔
کام کا جذبہ بیشمار۔۔۔
تیس گھنٹے ایمرجنسی میں کام کرنے کے بعد یاد آیا کہ کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔
اور آگے ڈیڑھ دن اور ہے۔۔
لہذا زندہ رہنا ہے تو کھانا ہو گا۔۔
کیفیٹیریا پہنچ کر بریانی کی پلیٹ منگوائی ۔۔
ایک فاقہ ۔۔
اوپر سے کھانے کی خوشبو۔۔
بس کچھ نا پوچھیں۔۔
دل کر رہا تھا دیگچی ہی انڈیل لوں معدے میں۔۔
خدا خدا کر کے پلیٹ آئی۔۔
ابھی چمچ منہ کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ توصیف ہمارا کلاس فیلو آ گیا۔۔
کہنے لگا ۔۔
واہ واہ بڑی خوشبو ہے۔۔
میں نے بھی کھانا ہے۔۔
صاف لگ رہا تھا پیٹ ٹھنسا ہوا ہے ۔۔
پر تنگ کر رہا ہے۔۔
میں نے ایک اور پلیٹ کا کہہ دیا۔۔
لیکن نہیں۔۔۔
اسے تو اسی پلیٹ میں سے کھانا چاہیے تھا۔۔
وہ فل تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔۔
بڑے ترلے واسطے دے پر جناب نا مانے۔۔
اس دن یاد آیا کہ کیسے جاں بلب صحابہ نے پانی کیلیے اپنے پر دوسرے کو ترجیح دی ہو گی۔۔
لیکن دل کو سمجھایا وہ صحابہ تھے اور یہ میں اور توصیف ہیں ۔۔
لہذا کھانے پر توجہ مرکوز کی۔۔
پر توصیف تو فل موڈ میں تھا زچ کرنے کو۔۔۔
آخر تنگ آ کر میں نے اسے انتہائی اقدام کی دھمکی دے ڈالی۔۔
وہ سمجھا کہ میں شاید کھانا زمین پر الٹ دوں گا۔۔
لہذا ڈٹا رہا تنگ کرنے۔۔
جب نا باز آیا تو میں نے وہ کر دیا جو اس کی سوچ سے باہر تھا۔۔۔
میں نے۔۔۔
.
.
.
میں نے پلیٹ میں تھوک دیا۔۔۔
جی ہاں۔۔
کوئی ایک بار نہیں۔۔۔
بار بار۔۔
آخ تھو۔۔آخ تھو۔۔۔آخ تھھھھھو۔۔
بھوک کی وجہ سے رال تو بے تہاشا جمع تھی لہذا نہایت خوبصورت پچکاریاں لگای گئیں۔۔
اب نہایت بے نیازی سے میج دوسرا آرڈر کینسل کروایا اور توصیف کو کہا بیٹا جی اب اگر ہمت ہے تو کھا کر دکھا۔۔
بیچارہ شریف آدمی تھا۔۔
اتنا ہی کہہ سکا کہ اب تو تو بھی نہیں کھا سکتا۔۔
کہ منہ سے نکلا نہیں کھاتے۔۔
میرے لیے کیا مشکل تھا۔۔
بھئی اپنا تھوک تھا۔۔
ایک آزمودہ نسخہ لگایا۔۔
تین دفعہ بسماللہ پڑھی۔۔
کلمہ پڑھا۔۔
دے پھونک ماری بریانی پر۔۔
اور آرام سے معدے میں اتر کر کریا کرم کر دیا۔۔
توصیف سامنے بیٹھا کراہیت آمیز شکلیں بناتا رہا۔۔۔
عمر نے بعد میں مجھ سے پوچھا کہ اگر تو توصیف کی جگہ ہوتا اور وہ اپنی پلیٹ میں تھوک دیتا تو کیا تو کھا لیتا؟
میرا جواب تھا۔۔
کبھی نہیں۔۔
البتہ میں بھی جوابا اس کی پلیٹ میں تھوک دیتا ۔۔
اور پھر کہتا لے بیٹا اب کھا اور موج کر۔۔۔
شکر ہے عمر نے اگلا سوال نہیں کر دیا۔۔
آپ سمجھ ہی گیے ہوں گے۔۔۔
ویسے مسلمان کا جوٹھا جوٹھا نہیں ہوتا۔۔۔
بات ہو گئی لمبی
ایسا کرتے ہیں کے بی کا قصہ پھر سہی۔۔
ابھی ہو جاے بات جو کر رہے تھے۔۔
آپ کو اب تک یہ تو پتہ چل گیا ہو گا کہ کھانے کے معاملے میں یہ گروپ کیا تھا۔۔
اب اس گروپ کے باقی ممبران سے بھی سب خوب واقف ہیں۔۔۔
جیسے کہ عمر۔۔
عمر سینٹی۔۔
ایک واقعہ تو آپ کو معلوم ہی ہے۔۔
ایک اور سن لیں۔۔
ایک رات وارڈ کے وارڈ کی نرس نے آ کر اٹھایا کہ باہر ایک مریض راہ عدم کا مسافر ہو گیا ہے۔۔
اس مریض کے کوئی اللہ جھوٹ نا بلواے پچیس کے قریب لواحقین تھے۔۔
مرد اور عورت ملا کر۔۔
جہان کہیں خالی بسترا دیکھتے تھے لمب لیٹ ہو کر دے خراٹے پر خراٹا مارتے تھے۔۔
سمجھ نہیں آتی تھی مریض کون سے ہیں اور قبضہ گروپ کون سا ہے۔۔
میں نے گردن گھمائی تو عمر غائب۔۔
پھر سے اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں چادر اوڑھ کر سونے کی کوشش کی اور نہایت لاپرواہی سے نرس کو کہا ڈاکٹر عمر ہے تو سہی ۔۔
ایوی ہی نیند خراب کی۔۔
آگے سے جواب آیا ۔۔
اسی لیے تو۔۔
یک دم ذہن میں خیال آیا ۔۔
اللہ خیر۔۔
ہاں جی وہی وہی۔۔
کہیں ڈاکٹر کو کٹاپا تو نہیں چڑھ گیا۔۔
اونچی آواز میں بین کی آوازیں تو آ رہی تھیں۔۔
لو جی ہڑ بڑا کے باہر بھاگا۔۔
کہ اگر عمر کو نہیں بچا سکتا تو ۔۔
اپنی جان تو بچاوں کہ اسلام میں خود کشی حرام ہے۔۔
لیکن راستے کا منظر دیکھ کر وہیں قدم جم گئے۔۔
کہ جیسے پتھر کے بنے ہوں۔۔
آنکھیں پھٹی کی پھٹی۔۔
کچھ دیر تو یقین نہیں آرہا کہ یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔۔
لواحقین تو رو ہی رہے تھے ۔۔
پر۔۔
عمر نے علحيده کمرہ آنسووں سے تتر بتر کیا ہوا تھا۔۔
کچھ دور پرے کے رشتہ دار عمر کا کندھا تھپتھپا کر دلاسے دے رہے تھے ۔۔
ڈاکٹر صاحب کوئی نہیں۔۔
اللہ کی مرضی۔۔
آپ نے تو پوری کوشش کی۔۔
اور کچھ خواتین تو ۔۔
ہاے پتر جیندہ رہ۔۔
بڑا چنگا بچہ ہے کہہ رہی تھیں۔۔
مابدولت کبھی نرس کو دیکھیں ۔۔
کبھی اس منظر کو۔۔
نرس کا بھی یہ شاید پہلا اور آخری ایسا عجوبہ واقعہ تھا۔۔
میں تو نیواں نیواں ہو کے نکل لیا۔۔
آپ لوگوں نے کیا کبھی ایسا دیکھا سنا؟
فلموں ڈراموں کے علاوہ۔۔۔
ہنسوں کا جوڑا
اور اس گروپ کے ہنسوں کے جوڑے سے تو آپ واقف ہی ہیں۔۔
ٹوٹو اور فارینہ۔۔
ٹوٹو اپنے وارڈ میں کم اور فارینہ کے وارڈ M2 میں زیادہ پایا جاتا تھا۔۔
ایک دن M2 کا ملازم آیا۔۔
دروازہ کھولا تاکہ ٹوٹو کو بلا سکے۔۔
اب آگے کا منظر اس کیلیے کافی مشکل سا تھا ۔۔
کوئی دس عدد بندے۔۔
گھپ اندھیرا کیے۔۔
اے سی کی ٹھنڈی چھاوں میں چادر تانے خراٹے مار رہے تھے۔۔
بیچارے نے اپنی طرف سے بڑی عقل لڑائی۔۔
کہ ذرا بڑے ڈیل ڈول والے۔۔
ذرا بلند خراٹوں والے۔۔۔
اور دروازے کے سب سے قریب جو ہے۔۔
یہی ڈاکٹر ٹوٹو ہے۔۔
بڑی رازداری سے پیر ہلایا ۔۔
ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب۔۔
وہ ڈاکٹرنی صاحبہ نے چاے تیار کر لی ہے۔۔
اور وہ اور ان کی سہیلیاں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔۔
اب اس کی قسمت ۔۔۔
وہ ٹوٹو نہیں، کامی تھا۔۔
نہایت بھنا کے بولا۔۔۔
وہ چاے والا مشٹنڈا آگے مرا پڑا ہے۔۔
ہم خدمتیں کرنے والے ڈاکٹر ہیں۔۔
ٹوٹو اور فارینہ کا کمال یہ تھا کہ ادھر تنخواہ آئی ۔۔
ادھر اگلے دن ٹوٹو کہہ رہا ہوتا تھا۔۔
یار پیسے نہیں ہیں۔۔
کھانا کھانا ہے۔۔
اور یہ اوپن سیکرٹ تھا کہ ہر پہلی کو یہ جوڑا درزی کے جاتا تھا۔۔
ٹوٹو نے منگیتر مریدی وہ نام پیدا کیا کہ مجنوں یا فرہاد اگر زندہ ہوتے تو طفل مکتب کہلاتے۔۔
ایک بار ایک برن کے مریض کا venesection (میرا خیال ہے یہی نام تھا جس میں گٹے کے پاس کٹ لگا کر وین نکال کر برینولہ ڈالتے تھے) کرنا تھا۔۔
ٹوٹو کی جانے بلا۔۔
کہنے لگا یار ایک کروا دے۔۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔
یہاں ایسے سیدھا کٹ لگا۔۔
لگا دیا۔۔
اتنے میں پیرنی صاحبہ فارینہ کا آرڈر آیا کہ نہیں across کٹ لگاو۔۔
اس سے بیشر میں روک سکتا ٹوٹو نے دوا دو ایک نہیں دو کٹ لگا مارے اور وہاں پر پھول بوٹے سے بنا دیے۔۔
اسے کہتے ہیں تابعداری۔۔۔
اللہ بھلا کرے۔۔
تو جی۔۔
یہ ان دونوں کی بات ہے جب فارینہ کے والد (اللہ انہیں جنت میں جگہ دے اب وہ وفات پا چکے ہیں) کو اوپر تلےدو ہارٹ اٹیک ہوے تھے۔۔۔
اب آپ جان ہی گیے ہوں گے کہ اس شتر بے مہار گروپ پر کڑی نظر رکھنے کیلیے کسی بزرگ کا ہونا ضروری تھا۔۔۔
اور اس کام کیلیے دابو کو بھائی سے اباجی کا رتبہ دیا گیا تھا۔۔
تو ایک ویک اینڈ جب ہم لوگ آف تھے۔۔
عمر نے اپنے گھر چینوٹ دعوت پر بلایا۔۔
(اب آپ کو اوپر والے تمام واقعات relevant لگیں گے)۔۔۔
دابو کا کھڑاک
کھانے کا بلاوہ اور اس سے انکار ۔۔
نا جی نا۔۔۔
یہ کفران نعمت ہم سے تو نہیں ہوتی۔۔
مگر ایک مسئلہ تھا۔۔۔
ہم تھے سارے فقرے۔۔
لہذا وہاں تک جانے کیلیے۔۔
گاڑی بھی عمر اپنے ابا جی کی لے کر آیا۔۔
واہ جی واہ۔۔
کیا گاڑی تھی۔۔
ٹویوٹا کراون۔۔
قسم سے ریل کے پوری برات لے کر جا سکتے تھے۔۔
چلانے کا علحيده ہی نشہ تھا۔۔
پورا ٹینک کا ٹینک۔۔۔
ٹرک والے بھی ادب سے راستہ دے دیتے تھے۔۔
خیر تو جی پروگرام یہ بنا کہ ساڑھے گیارہ بجے ہم سب نیچے الائیڈ کی ایمرجنسی کے باہر اکٹھے ہوں گے۔۔۔۔
اور پھر وہاں سے گاڑی میں لد کر چینوٹ محل کی سیر کو روانہ ہوں گے۔۔
میں اور کامی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ عین وقت پر نیچے آ موجود ہوے۔۔
میں اپنی فوڈ سٹیمپ سمیت حاضر۔۔
اور کامی اپنی ناقدانہ اور تنظیمی صلاحیتوں کے ساتھ ایک ایک گھڑی ایک ایک پل گنتا ہوا۔۔
پہلے تو عمر ہی پندرہ منٹ لیٹ تھا۔۔
لہذا اباجی نے اس کی کلاس لی۔۔
اور پھر جی انتظار شروع ہوا۔۔
ہنسوں کے جوڑے کا۔۔۔
پہلے بارہ بجے۔۔
پھر۔۔
بارہ بج کر ایک منٹ ہو گیا۔۔
دور دور تک کوئی آثار نہیں۔۔
چلو مان لیا۔۔
فارینہ تھی لڑکی۔۔
تیار ہونے میں ٹائم لگتا ہے۔۔
ہمارا کیا تھا۔۔۔۔
بس چھتر پہنے۔۔
قمیض پینٹ میں ٹھونسی۔۔۔
دو جمائیاں لی۔۔
منہ پر گیلا یا سوکھا ہاتھ مارا۔۔
اور تیار۔۔
بلکہ۔۔
ہر گھڑی تیار۔۔
لہذا فیصلہ ہوا کہ جوڑے کو تھوڑا اور وقت دیا جاے۔۔
پر یہ کیا۔۔۔
اب تو بارہ بج کر دو منٹ ہو گئے۔۔
ادھر فوڈ سٹیمپ کا وزن بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔
اور ساتھ ساتھ بے قراری بھی۔۔
اندازہ کریں۔۔
فروری کا مہینہ۔۔
فیصل آباد کی گرمی۔۔۔
سورج سوا نیزے پر۔۔
کہیں سایہ نہیں۔۔
گاڑی بھی تپتی ہوی۔۔۔
اب ایسے میں اباجی کا پارہ تو چڑھنا تھا۔۔۔
تھوڑا اور انتظار بھی کر لیا۔۔۔
اب تو حد ہی ہو گئی۔۔۔
یعنی پورے بارہ بج کر ساڑھے دو منٹ ہو گئے۔۔۔۔
بس اب مزید نہیں۔۔
کامی سخت بھنایا ہوا ۔۔
ایمرجنسی ریسیپشن پر پہنچا اور M2 کا نمبر گھما مارا۔۔۔
وہاں جس وارڈ بواے نے فون اٹھایا۔۔
پہلے تو اس کے پونے پندرہ طبق روشن ہوے۔۔
پھر اس کو سبق ازبر کروایا گیا۔۔
کہ جاو اور جا کر فارینہ سے کہو۔۔۔
نیچے جلدی تشریف لاو کہ تمہارے ابا جی نیچے ایمرجنسی میں کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔
اور ہاں ایسے ہی پیغام پہنچانا۔۔
ٹھک کر کے کامی نے فون بند کر دیا۔۔۔
لیں جی ۔
کومی کوئی آرڈر کرے اور کوئی چوں بھی کر جاے۔۔۔
ٹھیک بارہ بج کر تین منٹ اور پچیس سیکنڈ پر فارینہ نیچے۔۔۔
اور پیچھے پیچھے ایک بھالو لڑھکتا آ رہا۔۔
لیکن یہ فارینہ رو کیوں رہی ہے؟
کامی کی بات کا اتنا اثر!!!!!!!
لیکن یہ کیا ۔۔وہ تو اندھا دھند ایمرجنسی وارڈ میں گھس گئی۔۔
اور پیچھے پیچھے بھالو بھی۔۔۔
یا اللہ خیر۔۔۔
یہ رونا دھونا کامی کی بات پر نہیں لگتا۔۔۔
کہیں ٹوٹو نے تو نہیں مارا۔۔۔
پر۔۔۔
ٹوٹو کی یہ مجال۔۔۔
بلکہ۔۔۔
اس کی سوچ کی بھی یہ مجال۔۔۔۔
تو پھر ماجرا کیا ہے۔۔
جب بات کھلی تو۔۔۔۔
دھت تیرے کی۔۔۔
فارینہ کو جب پیغام پہنچا تو وہ سمجھی اس کے اباجی۔۔۔
پرانے والے اباجی۔۔
پھر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ایمرجنسی داخل ہو گئے ہیں۔۔۔
ہو ہو ہو۔۔۔
لو جی یہ تو کچھ کا کچھ ہو گیا۔۔۔
فارینہ کے آنسووں نے کامی یعنی اباجی دوئم کی وہ کلاس لی۔۔
کہ بس ان کا سوئم ہوتے ہوتے رہ گیا۔۔۔
اور الائیڈ سے چینوٹ کا فاصلہ ان ہچکیوں نے ابا جی کو یہ طعنہ بھولنے نہیں دیا۔۔
چنیوٹ
اللہ اللہ کر کے چینوٹ محل پہنچے
اباجی بہت شریف انسان۔۔۔
ابھی بھی شرمندہ شرمندہ سے۔۔۔
چپ چاپ سے۔۔
اوپر سے ہچکیاں۔۔۔
فل بٹہ فل ایموشنل بلیک میلنگ جاری وساری۔۔۔
شریف ابا جی کی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے!!!!
عمر معاملے کی حساسیت کو بھانپ گیا تھا۔۔
لہذا ہچکیوں کی توپوں کو خاموش کروانے کیلیے فٹافٹ کھانا لے آیا۔۔۔
ککڑ دیکھ کر ۔۔
اور وہ بھی خوشبودار۔۔
مزیدار۔۔
گرماگرم۔۔
بمع لوازمات۔۔۔
میری اور ٹوٹو کی کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔
(حالانکہ ٹوٹو کو فارینہ کی حالت کے پیش نظر یہ زیب نا تھا)
ہم دونوں ڈونگوں پر ٹوٹ پڑے اور کوئی پل کی دیر تھی۔۔
کہ مرغے اور دوسرے کھانوں کے پرخچے اڑا دیے۔۔
کامی کھانے کا ابھی قصد ہی کرتا تھا۔۔
کہ ادھر سے ایک ہچکی۔۔
پھر سوچا۔۔
پھر ہچکی۔۔
یعنی ایک ردھم ہی بن گیا۔۔
سوچا۔۔
ہچکی۔۔
سوچا۔۔
ہچکی۔۔
سوچا۔۔۔ہچکی۔۔
فارینہ فل ٹائم انتقامی کاروائی کر رہی تھی۔۔
اس کو بھانپ کر عمر فارینہ کو اندر والے پورشن میں لے گیا۔۔
تب کہیں جا کر دابو کے اوسان بحال ہوے۔۔۔
انھوں نے کھانے کی طرف پیش قدمی کی۔۔
مگر تب تک پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔۔۔
اب فقط اس شکست خوردہ سالن میں چند عدد گردنیں اور پنجے ہی رہ گیے تھے۔۔
دوسرے محاذوں پر بھی دھول ہی اڑ رہی تھی۔۔
چند ایک زخمی دانے ہی میدان جنگ میں بکھرے تھے۔۔
دابو نے بھاگتے چور کی لنگوٹ ہی سہی کے موافق انھیں اپنی مضبوط گرفت میں لیا۔۔
اور اپنا غصہ اتارتے ہوے۔۔
انھیں بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔
ساتھ ہی ساتھ ان کی کوشش تھی کہ وہ اپنی صفائی بھی پیش کر دیں۔۔
اسی کشمکش میں ان کے دہن مبارک سے کچھ ناقابل اشاعت بے معنی سی آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔۔۔
کہ اچانک۔۔۔
دروازہ کھلتا ہے۔۔۔
چیں ں ں ں ں ں ں ں ۔۔۔۔۔
اور سامنے عمر کے اصلی والے اباجی۔۔
ٹرائفل کا ڈونگہ لیے موجود۔۔۔
کمرے کا منظر دیکھ کر وہ ششدر سے رہ گئے۔۔۔
کامی پھسکڑا مارے بیٹھا ہے۔۔
سامنے ہڈیوں کا ڈھیر۔۔۔
اور سارے سالن کے ڈونگے اس کی آہنی گرفت میں۔۔۔
کامی کے دونوں ہاتھ اور منہ بھرے ہوے (یہ دوسری بات کہ وہ بچا کھچا ہی تھا)۔۔۔۔
اور باقی کے ممبران ایک شایستگی سے دیوار سے لگے سہمے سہمے سے کھانے کو ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کب کامی کے پنجوں سے کھانا آزاد ہو تو ان کو نصیب ہو۔۔۔
انکل کو ہمارے گروپ کے شودے پن کی اڑتی اڑتی خبریں تو پہنچی تھیں۔۔
پر یہ اندازہ اس دن ہوا۔۔
کہ صرف ایک ہی شخص اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔۔۔
انھوں نے داہنے ہاتھ کو کتھک ناچ کی صورت گھمایا اور جیسے سپن باولر گگلی کرواتا ہے ویسے ہی۔۔۔۔
کامی کی طرف دیکھتے ہوے زیر لب کہا ۔۔
کمال ہے۔۔
اور پلٹ گئے۔۔۔
ادھر وہ کمرے سے نکلے۔۔
ادھر میں اور ٹوٹو ٹرائفل پر ٹوٹ پڑے۔۔
جب تک کامی کھانے کو فارغ کر کے ادھر متوجہ ہوتا۔۔
ادھر ٹرائفل کے کچھ سہمے ہوے ذرات باؤل کے کناروں سے چمٹے ہوے سے رہ گیے تھے۔۔۔
کامی نے غراتے ہوے باؤل چھینا۔۔
اور انھیں انگلی سے صاف کرنا شروع کیا۔۔
ہم واپس اپنی تھاں پر پسارے۔۔
کہ اچانک۔۔۔
دروازہ کھلتا ہے۔۔۔
چیں ں ں ں ں ں ں ں۔۔۔
اور انکل سامنے کھیر کا باؤل لیے موجود۔۔۔
پھر وہی منظر۔۔
انھوں نے خشمگیں نگاہوں سے کامی کو گھورا۔۔۔
کامی کی وہ حالت۔۔
کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔
یہ زمین پھٹے اور ہم سمیت وہ اس میں سمو جاے۔۔
انکل نے ایک گہری ٹھنڈی سانس بھری اور گردن کو دائیں بائیں بل دیتے رخصت ہوے۔۔۔
اور دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ بند ہوا۔۔
ٹھک۔۔
جیسے تنہائیاں ڈرامے کے شروع میں بند یوتا تھا۔۔
اور ہم باقی پارٹی نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔۔۔
کامی کو یہ سیر بہت مہنگی پڑی۔۔
تو جی وہ کیا کہتے ہیں۔۔
بد سے دابو برا۔۔۔
Comments
👏👏👏🤣🤣🤣
ھاھاھا
صبح اٹھتے ہی کتنا اچھا سرپرائیز۔۔۔
بھئ میں نے تو فرمائش نہیں کی کہ رمضان ختم ہو تو بھائ سے کہانی کی عیدی مانگیں گے۔۔۔۔
لیکن آپ نے خود ہی اندازہ لگا لیا۔۔۔۔😊
بھئ اب تک کی کہانی تو سسپنس سے بھرپور ہے۔۔۔۔
سب کو پلا بھی دیتے ہیں اور خود بھی پی لیتے ہیں۔۔۔
عمر کو بھی ایک مزیدار چمچ پلا دیا اور خود تو کئی چمچ بریانی میں گھول کے پی گئے۔۔۔۔۔ھاھاھا
اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار رہے گا۔۔۔
دھماکے دار return of faisal bhai عرف شرارتی پانڈا
👏👏👏👏👏
بہت خوبصورت برجستہ انداز تحریر
کچھ دیر کیلیئے تو ھماراخوبصورت طرزِ تحریر پس منظر میں چلا جاتا ھے
😂😂😂😂😜
اس کہانی میں اپنی خوراک محفوظ کرنے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ھے ۔انتہائی اچھوتا ھے
پر یہ کنفرم نہیں کہ اس preservation method
کے بعد وہ خوراک ھم خود بھی کھا سکیں گے یا نہیں
😂😂😂
waiting for next episode