جند ماہی موٹر سیکل تے
تو جی کچھ روشنی چودھری صاب کے طریقہ واردات پر۔۔۔
چودھری صاب اور اسمارا بہن کے نام۔۔
ہس منظر وہی اسمارا کی بات۔۔۔
کہ پرانے زمانے میں لڑکے بسوں میں دھکے کھاتے لڑکیوں کے گھر تک پیچھا کرتے تھے۔۔
تو یقین مانیں چودھری صاب بالکل بھی ایسے نہیں تھے۔۔
یہ چیپ حرکتیں تو گندے بچے کرتے تھے۔۔۔۔
چودھری صاب کی ایک کلاس ہے۔۔۔
ایک سٹائل ہے۔۔۔
اور جناب پوری پلاننگ ہے۔۔۔۔
ایسے ہی تو نہیں ان کی جواد سے گہری چھنتی اور وہ کچھ سیکرٹ ڈسکس کرنے دبئی گیے تھے۔۔
خیر تو جناب۔۔۔
چودھری صاب نے اس کام کو عبادت سمجھ کر کیا اور جدید طریقہ ریسرچ کرنے کے بعد اپنایا۔۔۔۔
اس کام کیلیے انھوں نے ایک پیارا سا ًیاماہا ً پالا ہوا تھا۔۔۔
یہ ساری وارداتیں اس پر کی جاتی تھیں۔۔۔
اور جدت یہ تھی کی چودھری صاب نے سارے زمانے کو یہ یقین دلا رکھا تھا کہ فیصل آباد میں سیاچن سے زیادہ سردی پڑتی ہے۔۔۔
آپ لوگ یقین کریں ۔۔۔
فیصل آباد میں۔۔
جی ہاں۔۔
فیصل آباد میں جون کے مہینے میں۔۔
موٹر سائیکل پر کوئی شخص دوپہر کو ایک بجے(کالج چھٹی ٹائم) موٹرسائیکل پر پی کیپ سجا کے۔۔۔
چادر کی بکل مار کے۔۔۔
اور منہ پر شوخ لال رنگ کا ڈھاٹا باندھ کر ہوا کے سنگ سنگ بس کو اپنی پوری ذمہ داری سے اس کی منزل مقصود پر پہنچا کر آے ۔۔۔۔
دور سے دیکھنے پر تو ایسے ہی لگے کے ابھی بچہ بغل میں داب کر اڑن چھو ہو جائیں گے۔۔۔
اور کمال تو یہ کہ۔۔۔
ساتھ ایک بندہ رکھا ہوتا تھا۔۔۔
جی خادم ۔۔۔
مجھ معصوم کو یہی بتایا گیا تھا کہ یار ادھر کوئی رشتہ دار رہتے ہیں گھر صحیح یاد نہیں۔۔
بس اتنا معلوم ہے ہماری کالج فیلو کے ساتھ والا گھر ہے۔۔۔
ذرا مورل سپورٹ کیلیے آنا۔۔۔
اور میں خدائی خدمت گار بن کر اپنا وفادار ٹامی ہنڈا 70 لے کر پیچھے پیچھے خالہ کا گھر ڈھونڈنے۔۔۔
یہ تو اب سمجھ میں آیا کہ وہ ایک پنتھ دو کاج تھا۔۔
ایک تو بدنامی میرے حصہ میں آے گی کہ چہرا عیاں اور دوسرا اگر کو ئی برا وقت آے تو کچھ ریزرو ہو۔۔۔
ویسے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ واقعی فیصل آباد میں اتنی سردی پڑتی تھی؟
یا بس چودھری صاب صرف ۔۔۔۔۔