بھولو بھالو
کچھ بس کے ڈاکو ظالم بھی تھے
کچھ ہمیں لٹنے کا شوق بھی تھا۔۔
بھولو بھالو
یہ کہانئ ہے ہمارے بھولے ٹوٹو مہاراج کی۔۔
بادشاہ بندے۔۔
بے فکرے۔۔
وہ کیا کہتے ہیں
فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا۔۔
ٹوٹو مہاراج کا آبائی قصبہ اسلام آباد تھا۔۔
ویسے حصول علم کیلیے پی ایم سی کی گرد چھانی۔۔
اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ علم کی پیاس زیادہ تھی۔۔
یا شادی کا شوق۔۔
ہماری ایک معصوم کلاس فیلو کو اپنی معصوم صورت سے دھوکہ دے کر۔۔
سارے جہاں کا ترلا واسطہ پا کر ۔۔۔
شادی میں اعلی نمبروں سے کامیاب کہلاے۔۔
یہ ذکر اس لیے بیچ میں آیا کہ ۔۔
مابدولت کو شک ہے کہ فارینہ کا دل اسی واقعہ سے پسیجا تھا۔۔
کچھ یوں ھوا
تو ایک دن مہاراج اپنی سلطنت کا دورہ کر کے واپس دیار غیر کی جانب رواں دواں تھے۔۔
وقت گزاری کیلیے اور کچھ نہ ملا تو Harrison کھول کر بیٹھ گیے۔۔
جی جی وہی Harrison جو میڈیسن کی شہرہ آفاق کتاب ہے ۔۔
اور جسے بھائی لوگ صرف دوسروں پر رعب ڈالنے کیلیے نام کا استعمال کرتے تھے۔۔
ٹوٹو اس کے باقاعدہ قاری تھے۔۔
خیر دور کہیں کونے میں ۔۔
بس کے بہت پیچھے ایک ڈاکو ۔۔
ان کے خوشامدی کا روپ دھارے موجود تھا۔۔
اس نے اپنا حساب کتاب لگایا کہ یہ humpty dumpty کی صورت والا یقینا بہترین شکار ہے۔۔۔۔
پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے..
درباری نے ٹوٹو کے ساتھ سایاں ودایاں (یاریاں) لگائیں۔۔۔
ساتھ ساتھ وہ بسکٹ کھائی جا رہا۔۔
اب یہ تو زیادتی ہے ناں
یہ تو ٹوٹو کی دوسری بڑی کمزوری۔۔
کھانا پینا
(پہلے نمبر پر فارینہ ہے)
خوش خوراکیاں
آپ سب کو شاید یقین ناں آے لیکن اور بہت سے لوگ اثبات میں سر ہلا رہے ہوں گے۔۔
کہ ٹوٹو بلاتکلف ہر چیز کھا سکتا ہے۔۔
عملی مظاہرے میں میں نے جو کچھ دیکھا ۔۔
چاے کی پتی۔۔
ہری مرچ کا باؤل۔۔
کچے چاول۔۔
خشک دودھ۔۔
کچا پیاز۔۔
اور اس طرح کی بے شمار لذیذ اشیاء۔۔
بس یاجوج ماجوج کا اولین سپاہی ہے جو سوراخ میں سے نکل بھاگا۔۔
تو ۔
یہ کیا ھوا۔۔۔۔
اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کی ساتھ والا بسکٹ کھاے اور ٹوٹو صرف دیکھنے پر اکتفا کرے۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بہانا سوچے اور ٹوٹو کو آفر کرے۔۔
مہاراج نے کمال بے تکلفی سے خود ہی ہاتھ بڑھا دیا۔۔
اس کو اپنی قسمت پر یقین نا آ رہا تھا۔۔
ادھر ٹوٹو ایک کے بعد ایک بسکٹ ہڑپ کری جاے۔۔
ادھر اس کا دل ڈوبا جاے۔۔
آخر کار بڑی دیر بعد جب مہاراج پر اس کا اثر شروع ہوا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔۔
مہاراج نیم بیہوشی میں جانے سے پہلے اسے بتانا نہیں بھولے کہ آخری فتح مہاراج کی ہی ہے۔۔
وہ مہاراج کو لوٹ نہیں سکتا۔۔
(یہ بات آج تک اس کے پلے نہیں پڑی ۔۔ اگر کوئی یہ تحریر اس تک پہنچا دے تو اس کو بھی سکون ملے گا اور بیس سال پرانے راز سے پردہ بھی اٹھ جاے گا کہ وہ لوٹنے کے بعد بھی کیوں ناکام تھا)
تو جی جب بس الائیڈ کے سامنے رکی تو کنڈیکٹر اور ڈرائیور نے اپنے کانوں پر شرم کے مارے ڈھاٹے باندھے ہوے۔۔
پھر بھی ان کے منہ لال تھے شرم سے۔۔
اور ایک نیم ننگ ڈھڑنگ بھالو سا پیارا سا بندہ۔۔۔
کچھا اور بنیان میں بہت سارے ناقابل اشاعت الفاظ کہتا ہوا۔۔
ایمرجنسی کے حوالے کیا اور خود دوڑ لگائی۔۔
ٹوٹو کی یہ حالت اس لیے ہوئی کہ ۔۔
جب ڈاکو نے والٹ پر ہاتھ مارا تو خالی پرس اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔۔
اب اس ڈاکو کو تو ہول اٹھنے لگ گئے۔۔
کس نے لوٹا ۔۔۔ کس کو لوٹا
آج تک اس کے ساتھ یہ نہیں ہوا تھا۔۔
کہ اس کو بھی بھی کسی نے چونا لگایا ہو۔۔
اس کے تو ہاتھ پیر پھول گیے۔۔
اوپر سے ٹوٹو نشے میں اس ے اپنی محبوبہ سمجھ رہا۔۔
ڈاکو سوچے ٹوٹو کو لوٹے یا اپنی عزت بچاے۔۔
آخر ہمت کرتے ہوے اس نے ٹوٹو کو ایسا کر دیا جیسے گورے گرمیوں میں ساحل سمندر پر۔۔
یہ اس کی فرسٹیشن کی انتہا تھی۔۔
کہ اس نے اپنی ڈاکوانا عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔۔
خالی ہاتھ لوٹنا تو بے عزتی تھا۔۔
لہذا وہی میلے کچیلے کپڑے لے کر رفو چکر ہو گیا۔۔
بے چارے کا بس کا ٹکٹ بھی نہیں نکلا تھا۔۔
اس دن یقینا اس کے گھر صف ماتم بچھی تھی۔
خیر ایک صف ماتم تو ہاسٹل میں بھی بچھی تھی۔۔
متاع حیات
کیونکہ اس ایک واردات میں آدھا ہاسٹل اپنے مال و متاع سے محروم ہوگیا۔۔۔
ٹوٹو کے بند سے اترے کپڑے کچھ اس حساب سے تھے۔۔
(بھائیو معاف کرنا اتنے عرصے بعد ترتیب یاد نہیں)
بٹ صاب کی پینٹ۔۔
کامی کی شرٹ۔۔
انیل کا خالی بٹوہ۔۔
خرم لون کے جوتے۔۔
جپھے کی جرابیں۔۔
جے جے کی بیلٹ۔۔
وے جوادیا کی کتاب۔۔۔
عمر کا بیگ۔۔
ایک جونئیر کی عینک۔۔
دوسرے کا انڈر وئیر اور بنیان (بیگ والا)۔۔۔۔
الغرض ایک ہی ھلے میں آدھا ہاسٹل لوٹا گیا۔۔
عجب واردات تھی۔۔
اگر اس ڈاکو کو معلوم ہوتا کہ وہ ناکام رہ کر بھی کیا کر گیا ہے تو۔۔
آج وہ ہمارا وزیراعظم ہوتا۔۔
اسے اپنے ہنر کا پتہ ہی نہیں تھا۔۔
اور ہاں چلتے چلتے ایک انکشاف جو اج ہی سامنے آیا۔۔
ٹوٹو نے ہوش میں آنے پر فارینہ کو بتایا تھا کہ وہ اس کیلیے پورا اسلام آباد خرید کر گفٹ ل رہا تھا جو وہ ڈاکو لے گیا۔۔
تو میرا اندازہ صحیع ثابت ہوا۔۔
معصوم صورت نے اس واردات سے فارینہ کو دکھ بھری کہانی سنا کر متاثر کیا تھا۔۔
اور باقی کسی یارانِ غار کو یہ آخری بات نہیں معلوم تھی۔۔
اب الائیڈ میں کیا ہوا۔۔
یہ کامی اور عمر بتائیں گے