سورة النّبا
ایک مکی سورة، اور اتنی مترنم کہ پڑھ کر ھی لطف آئے۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی منکرین کو جواب دیتے ھیں اور انہیں عطا کی گئی نعمتوں کا شمار کروا کر پیش آنے والے حالات کا ایک منظر دکھاتے ھیں۔
بڑی خبر
شروع ایک استفسار سے ھے کہ وہ (منکرین) کیا سوال پوچھتے ھیں؟ بڑی خبر کے بارے میں؟
منکرین اپنے تکبر میں قیامت، حساب اور ابدی زندگی کو جھٹلاتے تھے۔ انکے سوال سیکھنے کی غرض سے نہیں بلکہ تحقیرانہ ھوتے تھے ۔۔ “کیا واقعی یہ دنیا ختم ھو جائے گی، کیا ھم پھر سے اٹھائے جائیں گے؟”
خبر کے لئے لفظ “نبا” استعمال ھوا ھے “خبر” نہیں۔ اس کا مطلب ایسی خبر جو کہ نا صرف بڑی ھے بلکہ اسے سن کر کوئی ایکشن بھی لینا پڑے۔ جیسے کسی طوفان کی خبر، جسے سن کر بغیر کوئی بچنے کی تدبیر کیے بیٹھنا صرف بیوقوفی ھو گی۔
اللہ تعالٰی فرماتے ھیں کہ وہ ضرور اسے جان لیں گے۔ جب وہ وقت آئے گا۔
نعمتِ الٰہی
اس وقت کے مخاطبین کو مدنظر رکھتے ھوئے، پھر اللہ تعالٰی اپنی نعمتوں کا بیان کرتے ھیں۔ انکو اس وقت کے ریگستانوں کے مسافر کی نظر سے دیکھیں تو اللہ تعالٰی فرماتیں ھیں کہ اس زمین کو بچھا دیا گیا اور پہاڑوں کو خیموں کی طرح گاڑ دیا۔
ھر مخلوق کو جوڑوں میں پیدا کیا (یہ اللہ تعالٰی کی خلقت کا مخصوص انداز ھے)۔ جیسے دن کے ساتھ رات، مرد کے ساتھ عورت، بدن کے ساتھ روح، دنیا کی فانی زندگی کے ساتھ آخرت کی ابدی زندگی۔۔۔۔۔
پھر اللہ فرماتے ھیں کہ، نیند کو آرام کی چیز بنایا اور رات کو پردہ۔ اسے ریگستان کے مسافر کی نظر سے دیکھیں، جو دن بھر کی مشقت کے بعد تھکا ھے، تو نیند ھی اسے آرام اور اگلے دن کے کام کے لئے توانائی دے سکتی ھے۔
پھر فرمایا کہ دن کو کام کاج کے لئے بنایا۔ کہ اب رات کے آرام کے بعد اپنے رزق کی تلاش کے لئے مکمل توانائی کے ساتھ تیار۔
اب اللہ دن میں نظر آنےوالی نعمتوں کا ذکر کرتے ھیں کہ کیسے کھلے آسمانوں کو تان دیا گیا اور سورج کو چمکایا گیا، جو کہ اس دنیامیں توانائی کاسب سےبڑاذریعہ ھےاورزندگی کی ضرورت۔اور پھر ریگستان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور ضرورت، بادل بارش اور ان سے اگنے والی فصلوں اور باغات کا ذکر۔
یہ ساری نعمتیں اس وقت کے ریگستانی لوگوں کے لئے تو اھم اور life line کی طرح تھیں ھی مگر اس کے بعد آنے والے سب انسانوں کے لئے بھی اتنی ھی اھم اور زندگی کی ضمانت ھیں۔ اس تذکرے سے اللہ تعالٰی اپنی نعمتیں جتا رھے ھیں تاکہ کسی کے ذھن میں کوئی اشکال نا رھے کہ بعد میں پیش آنے والے حالات میں کسی سے انصاف نہیں ھوا۔
یومِ حساب
اب ان نعمتوں کے تذکرے کے بعد، اللہ تعالٰی اس نباالعزیم کا بیان کرتے ھیں کہ وہ حساب کا دن ضرور اپنے مقرر وقت پر آ کے رھے گا۔ اللہ چاہتے تو براہ راست بات یہاں سے ھی شروع کر سکتے تھے مگر پہلے اپنی اس قدرت کا ذکر کیا جو اس وقت کے لوگوں کے سامنے تھی پھر قیامت کا ذکر کیا، تاکہ سننے والوں بات کا یقین کروایا جائے۔ واضح رہے، یہ سارا بیان منکرین کے قیامت اور دوبارہ اٹھائے جانے کے انکار اور مضحکہ کرنے کے جواب میں ھے۔
حساب کے دن کے شروع ھونے پر صور پھونکا جائے گا اور ساری مخلوق جوق در جوق میدان محشر کی طرف چلے آئیں گے۔
یہ دوسرا صور ھو گا۔ پہلے صور پر ساری مخلوق کو موت آ چکی ھو گی اور دوسرے پر سب اٹھائے جائیں گے اور میدان محشر کی طرف کھینچے چلے آئیں گے۔ ان دو کے درمیان کتنا عرصہ ھو گا، اللہ تعالٰی ھی بہتر جانتے ھیں مگر ایک بہت لمبا وقت ھو گا۔
اس وقت زمین کو پھیلا دیا جائے گا اور آسمان مختلف دروازوں میں بدل جائے گا (فرشتوں کی آمد و رفت کے لئے)۔پہاڑاپنی جگہ سے حرکت کر جائیں گے، جیسےلگےکہ نظر کا دھوکہ۔
پہلے اللٰہ تعالٰی نے زمین اور اس کی نعمتوں کو بیان کیا، اور اب بتایا جا رہا ھے کہ کیسے یہ سب ختم ھو جائے گا۔ وہ دن یوم حساب ھو گا۔ اس دن کوئی بھی جوڑوں میں نہیں مگر اپنے اپنے اعمال کا خود ھی ذمہ دار اور اپنی فکر میں مبتلا۔
جنت اور جہنم
اگلی کچھ آیات میں جہنم اور جنت کا ذکر ھے۔
جہنم کا پہلے کیونکہ جنت کے راستے میں بھی پہلے جہنم آئے گی، جس کے اوپر سے پل صراط پر سے گزر کر جانا ھو گا۔
اس سے جہاں جنتی اس بات کا شکر کریں گے کہ وہ کس انجام سے بچ کر جنت میں آئے ھیں، وہیں جہنمیوں کے لیے حسرت کا باعث بھی کہ وہ جنت کے راستے کو دیکھ کر بھی اس پر نہیں چل سکتے۔
کہا کہ جہنم انتظار میں ھے منکرین اور باغیوں کے (کہ وہ آئیں اور انہیں جھپٹ لے) ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وھاں نا ھی انکے لئے کچھ ٹھنڈک ھو گی اور نا ھی پینے کو سوائے ابلتے ھوئے پانی اور پیپ کے۔ اور یہ بدلہ ھے انکی نافرمانیوں کا۔
یہاں لفظ “احقابا” استعمال ھوا جو “حقب” کی جمع ھے۔ ایک حقب کتنا لمبا عرصہ ھے، اللہ تعالٰی ھی جانتے ھیں۔ اس ماحول میں جہاں ایک لمحہ بھی رہنا مشکل ھو، جہنمیوں کو ھر حقب کے اختتام پر لگے گا کہ ان کی سزا ختم ھونے کو ھے مگر پھر اگلا حقب شروع ۔۔۔۔ اس طرح، حسرت کی وجہ سے انکی سزا میں شدت پیدا ھو گی۔
پھر بیان ھے کہ، اپنی نافرمانیوں میں، وہ (منکرین) اللہ کی بتائی گئی نشانیوں کو مکمل جھٹلاتے رھے اور انہیں لگا کہ انکا حساب نہیں ھونے والا۔ مگر انکے ھر عمل، چھوٹا یا بڑا، کو لکھ لیا گیا تھا. اب،اس دن کے بعد، وہ چاہیں بھی تو کچھ اضافہ نہیں ھو گا مگر انکے لئے دردناک عذاب ھے۔
منکرین کہیں گے کہ، اب ھم تیری نشانیوں کو پہچانتے ھیں مگر وہ وقت تو حساب اور جزا کا ھے، کیونکہ عمل والی عارضی دنیا کا خاتمہ ھو چکا۔ اس دن ظاھری شکل پر نہیں بلکہ باطنی ایمان پر فیصلے ھوں گے۔
دوسری طرف، اللہ تعالٰی پر ایمان لانے والوں اوراپنے اعمال کی حفاظت کرنے والوں کا ذکر ھے کہ وہ بڑی کامیابیوں والے ھوں گے۔ انگوروں سے لدے باغوں میں، بہترین جوڑوں کے ساتھ، چھلکتے جام لئے۔ اور وھاں پر کوئی لغو بات ھو گی نا ھی جھوٹ۔ اور یہ رب کی طرف سے بے حساب انعام ھے۔ وہ مالک ھے آسمان و زمین کا اور وہ رحمان ھے۔
متقین کے لئے فیصلے اور انکو ملنے والی کامیابیوں کو اکٹھا بیان کیا گیا۔ جہاں منکرین کے لئے سختی، اٹھائے جانے اور روز محشر سے شروع ھو گی اور پھر چلتی رہے گی، متقین کا سفر بہت ھی پرسکون ھو گا اور وہ ایسے اپنے پر لطف انجام تک پہینچیں گے کہ لگے پلک جھپکنے میں سب کچھ ھوا۔
لفظ “رحمان” کا اضافہ کیا گیا، یہ جتانے کو کہ اللہ تعالٰی نے یہ دنیا اور اس کا نظام اپنی رحمت دکھانے کے لئے بنایا نا کہ عذاب کو۔ وہ جو ستر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ھے اپنی مخلوق سے، کیوں چاھے گا کہ مخلوق جہنم کا ایندھن بنے، جو کہ بد ترین ٹھکانہ ھے۔
یومِ محشر
اب دوبارہ، روز محشر کا ذکر ھے، مگر کچھ مختلف انداز میں۔
اس دن کے آغاز میں تو بے یقینی کی کیفیت ھو گی منکرین میں اور وہ کہتے پھریں گے کہ یہ کیا ھو رھا ھے، مگر پھر ایک مکمل خاموشی ھو گی۔ حساب سے پہلے۔۔۔۔۔
کہا، اس دن کسی کو کچھ کہنے کی اجازت نہیں ھو گی۔ فرشتے قطار در قطار کھڑے ھوں گے۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکے گا سوائے اس کے جسےاجازت دی جائے اور وہ صرف صحیح بات کریں گے۔
وہ دن ھے جو کہ ضرور آنے والا ھےجس دن بدلا ملے گا۔
اس دن کسی کا دکھایا یا کہا کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ جو اصل ھے اس پر حساب ھو گا، کیونکہ ہر ہر عمل کا ریکارڈ ھے، کھلا یا چھپا، چھوٹا یا بڑا۔
حسرت
آخری آیت میں پھر اس سزا کے دن کی یاد دھانی ھے کہ وہ دن (روز محشر) آنے والا ھے جب ہر کوئی وہ دیکھے گا جو کچھ اس دنیا میں کیا گیا۔ اس دن کی سختی(منکرین اور نافرمانوں کے لئے) ایسی ھو گی کہ وہ کہیں گے کہ کاش میں مٹی میں بدل گیا ھوتا اور کوئی حساب نا ھوتا۔
خلاصہِ سورة
اس سورہ کا آغاز منکرین کے تکبرانہ انکار سے ھوتا ھے جو وہ روزمحشر کا کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی اپنی دنیاوی نعمتوں کا ذکر کر کے اس دن کی سختیوں کو بیان کرتے ھیں۔ ساتھ ہی ابدی زندگیوں، جہنم اور جنت کا۔
اختتام پر پھر روز محشر کی ہیبت کا منظر ھے اور وہ سب دیکھنے کے بعد منکرین کی ذلت کا بیان کہ وہ کہیں گے، کاش ھم خاک ھوتے۔۔۔۔۔
جسکسے کے دل میں تھوڑا سا بھی ایمان ھے اور وہ اسی پر اس دنیا سے چلا گیا، اس کا ابدی ٹھکانا تو جنت ھو گا مگر وہ اپنے برے اعمال کی سزا جو کہ صرف روز محشر کی سختی بھی ھو سکتی ھے یا کچھ وقتجہنممیں،پوراکرکے ھی پہنچے گا۔ یہ وقت کتنا ھو، صرف اللٰہ ھی جانتے ھیں۔
جو لوگ، نا صرف ایمان لائے بلکہ تقوٰی کی زندگی گزار گئے، انکے لئے قبر اور روز محشر صرف ایک رسمی کاروائی ھو گی اور وہ اپنے اصلی ٹھکانے جنت میں پہنچا دیے جائیں گے۔
اللٰہ تعالٰی ھم سب کو اپنی امان میں رکھیں، اور اس دن کی سختیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
(یہ صرف میری سمجھ ھے، اگر کوئی غلطی ھو تو معاف کر دیں اور نشاندھی کر دیں۔ یقین ھے پروردگار سے کہ وہ بھی معاف کرے گا)