Allah Mian sachay…..
یاں اللہ میاں سچا یاں گورا سچا۔۔۔
یہ تھا وہ تاریخی جملہ جو ملہی بھائی کے دہن مبارک سے ادا ہوا جب ہم تازہ تازہ انگلینڈ میں وارد ہوے تھے اور میں نے اپنے ذہن میں نہایت عقیدت سے بت بنا کر بٹھایا اور اس کی پوجا اور پرچار بھی شروع کر دیا۔۔۔
اصل کہانی پر آنے سے پہلے ایک اور بات یاد آ گئی۔۔۔
شروع کے دن اور جاب کوئی تھی نا۔۔
بیگار کیمپ میں بھرتی ہو گئے اور بغیر پیسوں کے مزدوری شروع کر دی۔۔
ستم یہ کہ ایک تو تنخواہ نہیں اوپر سے الٹا بھتا دینا پڑتا تھا(کمرے کا کرایہ وغیرہ)۔۔۔
انہی دنوں میں جس گورے باس کے ساتھ کام کر رہا تھا ۔۔
وہ میرے کام سے کافی خوش سا تھا۔۔۔
اور وہ اپنے شعبہ سرجری کی کوئی توپ قسم کی چیز بھی تھا۔۔
ایک دن مجھ اکیلے کو یہ شرف میزبانی بخشا کہ خصوصا ناشتہ کرونے لے گیا اور وہ بھی اپنی جیب سے۔۔
فدوی کا ایک ٹکا نہیں خرچ ہوا۔۔
جو لوگ گوروں کو جانتے ہیں وہ یقینا اثبات میں سر ہلائیں گے کہ یہ اس کا ایک احسان عظیم تھا۔۔۔
کیونکہ گورا چونی چونی گننے والی قوم ہے۔۔۔
ادھر باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے پوچھا کہ کہیں جاب کیلیے اپلائی کیا۔۔
اور پھر پانچ چھ دفعہ یہ بھی پوچھا کہ اس کے لائق کوئی خدمت۔۔۔
مطلب کہنے کا کہ اگر کہوں تو وہ کہیں جاب لگوا دے۔۔۔
اور بڑے ہی اصرار سے۔۔۔
پر جی ملہی بھائی کا جملہ ڈھول کی طرح ذہن میں بج رہا تھا۔۔
گورا سچا گورا سچا۔۔۔
حرم شریف کے بعد اگر کہیں سچائی ہے تو۔۔۔
ہمیں است ہمیں است۔۔۔
اس پوتر دھرتی پر سفارش جیسا قبیہ فعل۔۔
نا جی نا۔۔۔
اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سچا انسان کسی کی سفارش جیسا گناہ کرے۔۔۔
نہیں میں نہیں مان سکتا۔۔۔
لہذا بڑے کانفیڈنس سے ہر بار نفی میں سر ہلا دیا۔۔
دل اندر سے دھڑا دھڑ کہہ رہا ۔۔
اوے چول نا مار۔۔۔
کہہ ہاں۔۔
پر زبان سے اعلان ہو رہا ۔۔۔
ہمت مرداں مدد خدا۔۔
اب اس کی شکل دیکھ کر سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ مجھے بیوقوف سمجھ ریا ہے یا مداح ہو گیا ہے ۔۔۔
ویسے تو میں نے پین ریڈی بھی کر لیا تھا کہ ایمرجنسی آٹو گراف دینا پڑ جاتا ہے۔۔۔
لیکن اس کے پاس اس وقت آٹوگراف بک ہی نہیں تھی۔۔۔
بہر حال ہو سکتا ہے پاکستانیوں کا کوی اچھا ایمپریشن ہی پڑ گیا ہو۔۔۔
یہ تو بہت بعد میں ایک انڈین نے بتایا کہ بیوقوف وہ جاب آفر کر رہا تھا۔۔
وہ بھی ٹریننگ۔۔
جیسے اس نے اسے لے کر دی تھی۔۔
اب پچھتاے کیا ہوت جب ملہی بھائی چرا گیے عقل۔۔
خیر اب اصل کہانی کی طرف کہ کس طرح گورے کی سچائی کا پردہ آنکھوں سے اتر گیا۔۔۔
اور ثابت ہو اکہ بس اللہ میاں ہی سچا رہ گیا ہے اب اس دنیا میں۔۔۔
ہوا یوں کہ۔۔
کچھ برس یونہی چٹکی بچاتے گزر گیے۔۔
مجھے ایک گاوں میں نالیاں مرمت کرنےکی جاب مل گئی۔۔(urologist)..
ویاں بھی باس ایک گورا ہی تھا۔۔
اب ہوا یوں کہ میری اس جاب کے ختم ہونے میں کوئی مہینہ یا ڈیڑھ رہتا تھا۔۔
میں نے اس دفعہ تکلف بلا طرف رکھا اور اس سے سیدھے سیدھے ہی پوچھ لیا۔۔
کہ جناب ۔۔
خادم اپنا بوریا بستر باندھ لے یا ٹھنڈ پروگرام رکھے۔۔
کہنے لگا۔۔
جانی(buddy) فکر ناٹ۔۔
جاب تیری ہے۔۔
صرف اور صرف تیری۔۔
تو ٹھنڈ (chill) کر۔۔۔
اور تو اور مجھے کچھ مشکل سوال بھی بتاے اور کہنے لگا یہی انٹرویو میں پوچھوں گا۔۔
میں نے بھی اخیر ٹھنڈ رکھ لی۔۔
کہیں اور اپلائی ہی نہیں کیا۔۔۔
ہاں وہ سوال اور ان کے جواب خوب رٹ لیے کہ جانی سے پوچھ کے تو دیکھو۔۔
جواب گَڈ آے گا۔۔ جیسے خنجر گاڑنا ہوتا ہے۔۔
لو جی انٹر ویو کا دن آن پہنچا۔۔
وہ گھڑی بھی آی جب نام پکارا گیا اور میں ایک شان بے نیازی سے کمرے میں داخل ہوا۔۔
اور ایک نہایت غیر آرامدہ کرسی پر سہولت سے براجمان ہوا۔۔
ایک خوداعتماد مسکراہٹ چہرے پر سجائی۔۔
اور کہا hello..
وعلیکم hello ہوا
سب پینل والے(وہی گورا،،ایک عدد کم گورا کنسلٹنٹ اور ایک ہیومن ریسورس کی کارندی) نے مجھے گھورا اور سوال جواب شروع ہوے۔۔
سوال ہمیں اپنے متعلق کچھ بتائیے۔۔
جواب (پہلے دل میں سوچا یہ کیا سوال ہے۔۔کیا مجھے جانتے نہیں۔۔ارے بھائی اپنا جانی۔۔ کمال کرتے ہو) باآواز بلند لیکن اپنے متعلق جھوٹ جھوٹ بتایا۔
۔اب سچ تو نہیں نا کہہ سکتے۔۔
خیر دل کو تسلی دی کہ آگے فکسڈ سوال چالو ہوں گے۔۔
تو جی دوسرا سوال۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ ہم آپ کو جواب سے مطلع کر دیں گے۔۔
ہیں ۔۔
او بھائی۔۔
یہ کیا۔۔
اوے وہ سوال کدھر گئے۔۔۔
اوے میں جانی۔۔
کیا نشے میں ہو۔۔
کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔
نگاہوں میں حیرت ۔۔
چہرے پر الجھن۔۔
ماتھے پر شکنیں۔۔
بوجھل قدم۔۔
میں کمرے سے بددلی سے بیدخل ہوا۔۔
باہر نکلا تو کیا دیکھا۔۔
ایک موٹا تازہ مشنڈا۔۔
گورا گورا سا۔۔
بانکا چھورا۔۔
بلکہ
چھچھورا سا۔۔
ایک امیدوار اور بیٹھا ہے۔۔
تب وڈے گورے کی کہانی سمجھ آئی کہ کیا ہاتھ دکھایا ہے۔۔
اور پھر وہی یوا جو آپ سب سمجھ رہے ہیں۔۔
ہیومن ریسورس کی کارندی نے نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی کے مشٹنڈا گورا تین ووٹوں سے کامیاب قرار دیا گیا ہے اور میری تو ضمانت ہی ضبط ہو گئی ہے۔۔۔
بس دل نے دہائی دی۔۔
اور دل ہی دل میں خادم رضوی بن گیا۔۔
او تھواڈی ۔۔دی سری۔۔
او دل۔۔۔و
او کمی۔۔۔نو
او روس دے الٹے۔۔
او بھو بھو والے جانور۔۔۔
او تیرا ککھ نا رووے۔۔
ہاے ہا۔۔
یہ کیا ہو گیا۔۔۔
ایک نیا سیاپا پے گیا۔۔
ملہی بھائی۔۔۔۔۔گورا کوئی نہ سچا۔۔۔
جاب ختم ہونے میں بس کچھ ہی عرصہ رہ گیا۔۔
میں نے تو کہیں اور اپلائی ہی نہیں کیا تھا۔۔۔
وہی بے روزگاری کے گردش ایام آنکھوں کے آگے گھوم گئے۔۔
بس دھڑا دھڑ اپلائی کرنا شروع کر دیا۔۔
کیا پی ایم۔۔
کیا سی ایم۔۔
کیا ڈاکڑر۔۔
کیا پروفیسر۔۔
سب جگہ عرضیاں ڈال دیں۔۔
To the head master
…..
…..
your’ obediently
کرتے کرتے ہاتھ تھک گئے۔۔
سجدے لمبے ہونے شروع ہو گئے۔۔
آواز میں ایک رقت طاری ہو گئی۔۔
اور ایک دن اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے۔۔
ٹرنگ ٹرنگ۔۔۔
ٹرنگ ٹرنگ۔۔۔۔
ٹرنگ ٹرنگ ۔۔۔۔
ہالو۔۔
ہیلو ۔۔کون ہے۔۔
میں۔۔
میں کون۔۔۔
میں فیصل۔۔تسی کون۔۔
ایک دْم آنکھیں کھل گئیں۔۔۔
دوسری طرف کسی ہسپتال کی ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ سے کوئی خاتون مترنم آواز میں مجھے ہڈیاں جوڑنے کیلیے دعوت دی رہی تھی۔۔۔
پہلے تو یقین نہیں آیا۔۔
کہاں پلمبر۔۔
کہاں پہلوانی ۔۔
خود کو تخیل میں ایک موٹا تازہ پہلوان سا محسوس کیا ۔۔
جابجا بکھرے چیلے۔۔۔
اور ہڈی جوڑ توڑ عروج پر۔۔۔
کچھ عجیب سا لگا یہ سارا منظر۔۔۔
پھر دل کو سمجھایا ۔۔
دفعہ کرو۔۔
اس وقت جاب چاہیے۔۔
لہذا فٹا فٹ انٹرویو کیلیے ہاں کر دی۔۔۔
لو جی تو آخری معرکہ شروع ہوا۔۔۔
انٹرویو والی جگہ ٹوٹو اور فارینہ کے گھر کے پاس تھی۔۔۔
لہہذا بیگم کو ادھر چھوڑا۔۔۔۔
کہ جا جی لے اپنی زندگی۔۔۔
اور خود بابل کی دعائیں لیتے ہوے۔۔
رخصت ہوا۔۔
ٹوٹو نے کچھ روحانی منتر بھی بتاے۔۔
(کہانی کے اینڈ پر ان کا انکشاف کروں گا)۔۔۔
کہنے لگا کہ بس راستے میں پڑھ لے۔۔۔
ایک دم سعادت مند بچے کی مافق ان کو زیر لب اور با آواز بلند دہرایا اور۔۔۔۔
ہرچہ باد آباد۔۔۔
گاڑی بھگاتے بھگاتے ہسپتال پہنچا۔۔
انٹرویو ایک خوبصورت سی لابی سے ملحقہ کمرے میں ہو رہا تھا۔۔
آرام دہ صوفے۔۔
کہ بندہ آرام سے خراٹے مار لے۔۔
لیکن کچھ ماحول ٹینس سا تھا۔۔
کیونکہ میں نے نوٹ کیا کہ یہاں بھی ویسی ہی مثلث ہے انٹرویو کیلیے جیسی پچھلے انٹرویو میں تھی۔۔
ایک گورا باس۔۔
ایک کم گورا باس اور ایک ہیومن ریسورس کی کارندی۔۔۔
ٹینشن دور کرنے کیلیے دیگر امیدواروں سے گفتگو چالو کی۔۔
کچھ ایویں چول سے لگ رہے تھے۔۔
اپنا کانفیڈنس بڑھانے اور اگلوں کو دباو میں لانے کیلیے ضروری تھا کہ انہیں بتاوں کہ میں نے شعبہ پہلوانی میں پورے چھ ماہ۔۔
ہاں جی چھ ماہ ہاوس جاب کی ہے۔۔
منصوبہ یہ تھا وہ رعب میں آ کر نا امید ہو جائیں گے اور ان کا انٹرویو گندا ہو گا۔۔
لیکن ایک مسئلہ ہو گیا۔۔
ان میں سے ہر ایک کم از کم ایم ایس تھا اس شعبہ میں۔۔۔
لو جی اے تے پٹھی پے گئی۔۔
اپنی حالت ہی پتلی ہو گئی۔۔۔
کوئی نہیں ۔۔
کوئی نہیں۔۔
تسلی دی اپنے آپ کو۔۔
اور سوچا کہ اپنی کتنی تیاری ہے ان کے مقابلے میں۔۔۔
تیاری میں داد دی کہ میرا سوٹ ان سے اعلی تھا۔۔
جوتے چمک رہے تھے۔۔
ٹائی شاندار۔۔
بال برابر کٹے ہوے اور سلیقے سے کنگھی۔۔
شیو برابر۔۔۔
اچھی خوشبو۔۔
اطمینان ہوا۔۔
کافی ساری تیاری ہے۔۔
اور پھر وہ لمحہ آن پہنچا۔۔۔
میں مضبوط قدموں اور کانپتی ٹانگوں کے ساتھ نہایت کانفیڈنس سے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔
تشریف رکھیں۔۔۔
رکھ لی۔۔۔
جی تو پہلا سوال۔۔۔
اپنے متعلق کچھ بتائیں۔۔۔
پھر وہی۔۔۔
میں بھنا سا گیا۔۔۔
یہ سارے گورے ہی ان پڑھ ہیں۔۔۔
انگریزی کے دو لفظ نہیں پڑھ سکتے۔۔۔
سی وی میں سب لکھا تو ہے۔۔۔۔
کہیں پھر وہی چال تو نہیں۔۔۔
لگتا ہے مجھے ہر دفعہ نظر بٹو کے طور پر ہی بلایا جاتا ہے۔۔۔
خیر جتنی کی اپنی تعریف کر سکتا تھا کی۔۔
بلکہ کرتا ہی چلا گیا۔۔۔
کیا الائیڈ کے قصے۔۔
تو کیا انگلستان کی ہوش ربا داستانیں ۔۔
بس جو دل میں آیا وہ منہ پر آ گیا۔۔۔
بھئی جب مرنا ہی ہے تو کیوں نا لڑتے لڑتے مرا جاے۔۔
اگلا سوال۔۔
جی آپ کو مطلع کر دیں گے۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔
نہیں یہ نہیں تھا۔۔
ویسے میں یہ ہی اکسپیکٹ کر رہا تھا۔۔۔
تو جی اصل دوسرا سوال۔۔کچھ اپنے لندن والے ہسپتال کے experience پر روشنی ڈالیں۔۔۔
میں روشنی ڈالنے ہی لگا تھا کہ خیال آیا۔۔۔
ہیں کون سا لندن۔۔
کون سا ہسپتال۔۔
ارے میں نے تو کبھی وہاں کام ہی نہیں کیا۔۔۔
یہ سن کر وہ کچھ کنفیوز سے ہو گئے۔۔۔
خیر اگلا سوال۔۔۔
اچھا نیو کیسل میں جو ہڈیاں جوڑتے رہے ان کے متعلق کچھ جانکاری دیں۔۔
لو جی یہ گورے تو بالکل ہی سٹھیا گئے ہیں۔۔
میں نیو کاسل میں کوئی ایک رات ہی کام کر پایا ہوں۔۔ وہ بھی لوکم۔۔ یعنی جب کوئی چھٹی پر ہو ۔۔۔
تو انھیں میرے کارنامے کا کیسے پتہ چل گیا ۔۔۔
وہ ایک علحدہ ہی قصہ ہے۔۔۔
میں نے کہا جی اب اس کے متعلق کیا بتاوں!ـــ
اب وہ کچھ اور بونتر گئے۔۔۔
اچھا تو لیورپول ۔۔۔
او بھائی رک رک رک ۔۔
یہ کیا پوچھی جا رہے ہو۔۔۔
کچھ دیر خاموشی سی چھا گئی۔۔
پھر ایک گورا بولا۔۔
آپ کا شبھ نام فیصل ہے۔۔
لو بھائی آپ تو کوئی پہنچے ہوے بزرگ ہیں۔۔ جی ہاں۔۔
آپ کراچی میں پیدا ہوے۔۔
نہیں بھائی لاہور میں۔۔
کراچی اچھا شہر ہے ۔۔پر اتنا بھی نہیں کے جاے پیدایش ہی بدل دوں۔۔
آپ فیصل رحمان ہیں۔۔
نہیں بھائی کیا پی رکھی ہے۔۔
میں فیصل خان ہوں۔۔۔
لو جی ایک تکلیف دہ خاموشی چھا گئی۔۔
پہلے دونوں گوروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دونوں نے کارندی کو۔۔
اور پھر تینوں نے بیک وقت مجھے۔۔۔
لو بیٹا کیا سمجھے۔۔۔
اجی انھوں نے شارٹ لسٹ کسی اور کو کیا تھا ۔۔۔
لیکن کارندی نے مجھے کال کر دی۔۔۔
اور نتیجہ آپ کے سامنے۔۔۔
کچھ دیر تک ایک دوسرے کو گھوریاں کروانے کے بعد انھوں نے مجھے آزاد کر دیا۔۔۔
میں بالکل ہی مایوس سا ٹوٹو کے گھر آ گیا اور ساری روداد سنا ڈالی۔۔۔
ٹوٹو مہاراج فرمانے لگے منتر پڑھ لیا تھا ناں۔۔
میں نے کہا ہاں۔۔
تو اطمینان سے فرمایا۔۔
بھای تجھے جاب کی ضرورت ہے۔۔
اللہ تجھے اپنا کرشمہ دکھانا چاہتا ہے کہ کیسے کیسے وہ روزگار لگاتا ہے۔۔
لہذا تو ٹھنڈ کر یعنی chill کر۔۔
میں مانوں کہ ٹوٹو پاگل ہو گیا ہے۔۔۔
اچانک ۔۔۔
ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔۔۔
ٹرنگ ٹرنگ۔۔۔
ٹرنگ ٹرنگ۔۔۔
ٹرنگ ٹرنگ۔۔۔
دھڑکتے دل کے ساتھ ۔۔۔ ہالو۔۔
ہیلو کون۔۔
میں فیصل۔۔ تسی کون۔۔
میں گورا باس۔۔
ہاں جی حکم۔۔
بس جی حکم کی۔۔مبارکاں ۔۔جاب آپ کی ہوئی۔۔۔
ہیں جی۔۔ہیں جی۔۔۔ہیں جی۔۔۔
ش ش شکریہ ۔۔
بس اتنا ہی کہہ سکا۔۔۔
اس دن سے ٹوٹو میرا پیر ہو گیا۔۔۔
جھلا پیر۔۔۔
تے میں منتر اور اللہ دا قائل ہو گیا۔۔
بس اک اللہ سچا۔۔۔
Comments
لگتا ہے
آجکل
ابن انشاء ۔۔۔۔۔کے ساتھ کافی صحبت ہے ۔۔۔۔
مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہوتے
جب اچانک
اگلی قسط آئندہ۔۔۔۔۔۔۔
لکھا آ جاتا ہے
تو
عمران سیریز۔۔۔۔
کا
سسپنس
یاد آ جاتا ہے
اتنا سسپنس۔۔۔۔۔تو
پوری عمر ان سیریز میں نہیں ہوتا
جتنا۔۔۔۔۔۔
فیصل چٹا۔۔۔۔۔۔۔
ایک
شارٹ سٹوری
میں
سر کے بال سے لے کر
پیر کے ناخن تک
بھر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آثار بتاتے ہیں کہ
مزاح اور سسپنس ۔۔۔۔۔کے میدان میں
وہ قیامت آنے والی ہے
جس کا ذمہ دار
فیصل چٹا چالباز عرف شرارتی پانڈا
فرام
چارمنگ سیشن گروپ
سے ہو گا۔۔۔۔۔
الف لیلا ہزار داستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کی حیرت
اور
خوشی
دونوں
بڑھتے ہی جاتے ہیں۔۔۔۔
کثرت تو ہے
اب
تو
برکت بھی ذیادہ زیادہ ہوتی جاتی ہے
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ
🌹🌹🌹🌹
بھئی کمال ہے۔۔۔۔
کیا اندازِ بیاں ہے۔۔۔
ایسا لگا آپ کے ساتھ ہم بھی انٹرویو دے رہے ہیں۔۔ محاوروں کا بہترین استعمال۔۔۔ بلکہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال۔۔۔۔ملھی بھائ کا قولِ زریں اور گورے کی گوری صفات۔۔۔۔کیا بات ہے
اور کیا فرمایا۔۔۔نالیاں مرمت کرنے کی جاب۔۔۔۔ھاھا۔۔۔یورولوجی کی انتہائ عمدہ ڈیفینیشن۔۔۔
پھر chill کا مطلب ٹھنڈ رکھ اور buddy کا جانی۔۔۔یعنی جانی۔۔۔ھاھا۔۔۔رئیلی۔۔۔جانی
اور جب آپ نے خادم رضوی کا رول نبھانا شروع کیا۔۔۔کمال ہے۔۔۔۔
او دل۔۔۔و
پہلے تو سمجھی واؤ سے پہلے “د” لکھنا بھول گئے۔۔۔پر وہ تو “او دِل دو” بن جائے گا۔۔۔۔ایک تو جاب نہیں ملی اوپر سے کہ رہے ہیں ۔۔۔او دل۔۔دو
ہیں۔۔۔یہ کیا؟
او کمی۔۔۔نو
یعنی کوئ کمی یا deficiency نہیں ہے۔۔۔۔ہیں۔۔۔جابز کی یا ٹیلنٹ کی۔۔۔
او روس دے الٹے۔۔
روس کا الٹا ۔۔۔یعنی امریکہ۔۔۔تو امریکہ آنا چاہتے تھے؟
او بھو بھو والے جانور۔۔۔
ھاھاھا۔۔۔۔اوہ یعنی ۔۔۔۔جب بات یہاں تک پہنچی تو سب سمجھ میں آ گیا۔۔۔۔ھاھا
بہت مزا آیا۔۔۔۔
اب کم از کم رمضان ختم ہونے تک ہم بھی ٹرمپ کو ٹی وی پہ دیکھ کے یہی کہیں گے۔۔۔۔او بھو بھو کرنے والے۔۔۔۔۔
پھر وہ پہلوانی کا منظر۔۔۔۔
آپ اور آپ کے سارے چیلے۔۔۔۔یعنی آپ کے حقیقی زندگی کے سارے دوست۔۔۔۔ڈنڈ پیلتے ہوئے ۔۔۔۔۔
ھاھاھا۔۔۔جسٹ امیجن۔۔۔۔موٹے تازے۔۔۔تڑک تڑک ہڈیاں جوڑتے ہوئے۔۔۔ھاھاھا
اور آخر کار ایاز بھائ کے جنتر منتر کام کر گئے ۔۔۔
ویسے بھی معصوم لوگوں کی باتیں اکثر سچ ہو جاتی ہیں۔۔۔لگتا ہے اب اُن سے ڈائیریکٹ رابطہ کرنا ہی پڑے گا۔۔۔دیکھا فارینہ کی چوائس۔۔۔ کیسے شاندار اور ہر فن مولا ہیں بھائ اور معصومیت سونے پہ سہاگہ۔۔۔ماشااللّہ
ہر جملہ مزاح میں لپٹا ہوا۔۔۔شرارت سے اٹا ہوا
اور حتی کہ یہ جو فون کی گھنٹی تھی ناں۔۔۔
ٹرنگ ۔۔۔۔ٹرنگ
ٹرنگ۔۔۔۔۔ٹرنگ
وہ بھی مزاحیہ تھی۔۔۔۔پتہ نہیں کس زمانے کا فون تھا۔۔۔یا یو۔کے میں ایسی ہی گھنٹی والے فون ہوتے ہیں؟