الات تزکیہ نفس
الات تزکیہ نفس (روح، نفس، شعور، الہام، دل و صدور)
تحریر: غضنفر علی انور
ریفرنس اور تحریر کے اسلوب:
ریفرنس سیکشن میں متعلقہ قرآن آیات کا ترجمہ بیان کیا گیا ھے جن کی روشنی میں اس مشکل موضوع پر ایک علمی تحریر کی اپنی سی مختصر کوشش کی ھے۔
“دل” کے موضوع پر پہلے کچھ لکھا تھا اور اس میں کچھ مزید اضافہ کرنے کا ارادہ ھے۔ موجودہ تحریر میں غلطی یا بہتری کی نشاندھی کی گنجائش ھے اور ایسا محسوس ھونے پر ضرور مطلع کریں۔
قران پاک میں الفاظ: روح، نفس اور لفظ تمھیں (یعنی تمھاری یا انسان کی ذات individuality )، دل ( قلوب ، فواد) اور سینہ (صدور، صدر) کی اصطلاحات استعمال ھوئی ھیں۔ یہ سب انسانی کی مادی، احساسی (emotional) اور روحانی شخصیت کی نسبت سے استعمال ھوئے ھیں ۔ ان الفاظ کی لفظی تشریح قرآن پاک میں نہیں کی گئی۔ غور کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ سب الفاظ آیت کے theme کے لحاظ سے قرآن پاک میں استعمال ھوئے ھیں۔
کافی ریسرچ کے بعد ان آیات کو میں نے 5 حصوں میں ریفرنس سیکشن میں کاپی کر کے آیت کے تھیم theme کے لحاظ سے لکھا ھے۔
پہلے حصہ میں پیدائش سے متعلق آیات،دوسرے میں موت سے متعلق، تیسرے میں زندگی کے دورانیے سے متعلق، اور چوتھا حصہ میں کچھ دوسری متعلقہ ایات ھیں۔ اسکے علاوہ پانچواں حصہ دل اور سینہ کی کیفیات سے متعلق ایات سے متعلق ھے۔
تمام ایات میں جو عربی لفظ( نفس یا روح یا تمھیں کہہ کر انسان کی ذات سے خطاب کیا گیا ھے) استعمال ھوا ھے کو میں نے ترجمہ کرنے والے کی سمجھ کے مہفوم کے بجائے آیت کی عربی کے مطابق لکھا ھے۔
میرے خیال میں ان تمام چیزوں کیلئے الات تزکیہ نفس کا نام مختص کیا جا سکتا ھے۔ انسان کا امتحان قران کے مطابق دنیا میں تزکیہ نفس ھے اور اسلئے اس کو اخرت میں امتحان کا نتیجہ تھمایا جائے گا اور جزا و سزا دی جائے گی۔
اس سب کا مطلب سمجھنے کیلئے میرے خیال میں مندرجہ ذیل عناصر کو اکٹھا کرکے سوچنا ھو گا: آیت کا لفظی ترجمہ اور مہفوم، سائنسی علم، اور اجتماعی اور انفرادی مشاھدات۔ چونکہ ان الات تزکیہ نفس کا باھمی طور میں گہرا تعلق ھے اسلئے ان کے اجزا کی تفصیل میں معلومات کی بعض مقام پر تکرار ھے۔
جسم اور روح کی ابتدا :
آیت ( 85: 17 ) کے مطابق روح کے بارے میں اللہ نے کچھ زیادہ علم نہیں اتارا۔
اسکے ساتھ ساتھ قران پاک کا ترجمہ کرنے والوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اردو یا کسی دوسری زبان میں عربی الفاظ کے ترجمہ کو صرف اپنی سمجھ کے مہفوم کے طور پرtranslate کیاھے۔ جس کی وجہ سے روح ،جس کے بارے میں پہلے ھی کم علم دیا گیا ھے، کو سمجھنے میں کچھ اور بھی مشکل ھو جاتی ھے.
اللہ زندہ ھے اور زندگی بخشتا ھے۔ تمام مخلوقات جن کو زندگی بخشی گئی کو ایک روز مرنا بھی ھے اور پھر قیامت کے روز دوبارہ زندہ کرکے اکٹھا بھی کیا جانا ھے۔
قرآن کے مطابق (20 ،29:19 ) اللہ زندگی کی ابتدا کرتا ھے پھر اسےدوبارہ پیدا کرئے گا۔
انسان کی نسل کی ابتدا مختلف مراحل میں ھوئی۔ ھر مرحلہ ھو سکتا ھے سالوں پر محیط ھو۔
پہلے مرحلہ میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام(یعنی پہلے جوڑے) کی پیدائش ھوئی. پھر دوسرا مرحلہ میں ان سے آگے نسل انسانی کی افزائش ھوئی یعن اس کو پھیلایا گیا۔
اسکے علاوہ ایک ذرا مختلف طریقہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت بھی اختیار کیا گیا۔ یعنی اللہ جو چاھتا ھے پیدا کرتا ھے اور سب سے بہتر خالق ھے۔
حضرت آدم کی پیدائش بغیر ماں اور باپ کے ھوئی۔
حصہ چہارم میں( 4: 50 ) ایت بتاتی ھے کہ جو اجزا زمین موت کے بعد کھاتی ھے اسکا علم خدا کو ھے۔ اور حصہ اول کی آیات بتاتی ھیں کہ پہلے انسان کا جسم مٹی سے بنا تھا۔
یعنی یہی اجزا مٹی سے اکھٹے کیے گئے اور انکو درست کیا گیا۔ درست کرنے سے میرے خیال میں مراد ھے کہ ان کو ترتیب دے کر انسان کا DNA اور پہلا خلیہ ان اجزا سے وجود میں لایا گیا۔
اس خلیہ کو جس میں ڈی ان اے موجود ھے جسم میں ایک بنیادی مادی اینٹ کی حثیت حاصل ھوگئی جس میں انسانی جسم کی عمارت کھڑی کرنے کا علم رکھ دیا گیا۔ یہ ھے زندگی کی ابتدا کرنا۔
اس خلیہ میں اللہ کی طرف سے روح پھونک دی گئ (15:29، 32:9)۔
روح پھونک دینا میرے خیال میں اس پروسس یا طریقہ کی مثال ھے جس کے تحت خلیہ میں زندگی کے قائم رھنے اور زندگی پھیلانے کی صلاحیت کا حکم الہی خلیہ تک پہنچایا گیا اور پھر خلیہ کو اس صلاحیت پر عمل درآمد کرنے کا پابند کر دیا گیا۔
یعنی روح اللہ کا زندگی کی ابتدا اور اسکو پھیلانے ( آیت 4:1) کی خاصیت نافذ کرنے کا حکم ھے۔
وحی یا الہام اور روح:
آیت نمبر ( 12 : 41 ) پر غور کریں کہ ھر اسمان پر اسکا کام وحی کر دیا گیا۔ یعنی ساری کائنات کے ذرات حکم الہی سے جڑے ھوئے ھیں اور اللہ تعالی ان الہام کیے گئے قوانین اور اصولوں کے تحت کائنات کی ساخت اور اسکا فنکشن چلا رھے ھیں۔ یعنی ھر ذرہ اپنی اپنی روح (حکم الہی) سے جڑا ھے۔ اور پردہ کے دوسری طرف سے انے والی انرجی اور احکامات کا پابند ھے۔
میرے خیال میں اسی لیے قران پاک میں فرمایا گیا کہ کائنات میں ھر چیز اللہ کی تسبیح کر رھی ھے ( 44 : 17 )۔ تسبیح کرنے کے عمل پر غور کریں آپ رحمان کی طرف سے نازل کی ھوئی ایک چیز کو بار بار دھراتے ھیں۔ حکم الہی روح کی شکل میں کائنات کی ھر چیز اور ذرے سے منسلک ھے اور یہ سب چیزیں چاھنے یا نا چاھنے کے باوجود حکم الہی کے تحت بھیجے گئے یعنی الہام کئے گے اصولوں پر عمل کے پابند ھیں۔ اور ان احکام کے مطابق ایک ھی طریقہ سے بار بار ایک ھی انداز کی گردش یا تسبیح کر رھی ھیں۔ جیسے سورج، سیارے، ایٹم، الیکڑان، انسانی دل، جسم اور اجزا سب اپنے اپنے کام ایک خاص منتخب کیے گئے طریقہ سے متواتر کئے جارھے ھیں۔ یعنی ھر جاندار اور بے جان چیز کی ایک روح (یعنی اسکے متعلق ایک خاص حکم الہی ھے) ھے جسکے مطابق وہ چیز فنکشن کرتی ھے۔
جسم کی بایولاجک ماھیت، نفس و شعور کی موجودگی اور افزائش نسل کی صلاحیت کی بنیاد پر انسان کسی چیز کو جاندار کہتا ھے اور ان خصوصیات کے نہ رکھنے والی چیزوں کو بے جان۔
مگر اصل میں میرے خیال میں قران پاک کے علم سے شاید یہ سوچا جا سکتا ھے کہ کائنات کی ھر چیز اور ذرہ زندہ ھے یعنی living ھے مگر ھم اسے سمجھتے نہیں کیونکہ ھمارے نزدیک زندگی وھی ھے جو ھم جیسی ساخت کی ھو۔ غورکریں کہ قران پاک میں کہا گیا کہ حضرت داود علیہ السلام کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر کر دے جو تسبیح کرتے تھے ( 79 : 21)۔
اور یہ کہ جب یہ ذمہ داری ( میرے خیال میں تزکیہ نفس کی ذمہ داری) آسمانوں، زمین، اور پہاڑوں پر ڈالی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ڈر گئے (72: 33)۔
ان ایات کی رو سے جو چیزیں ھم بے جان سمجھتے ھیں درحقیقت حکم الہی کی پابندی کرنے کی شکل میں اپنا کام سرانجام دے رھی ھیں اور اپنے زندہ ھونی کی دلیل دیتی ھیں۔ اسلئے قران میں کہا گیا ھے کہ روح اللہ کا حکم ھے۔ ھر چیز پر جو روح یا حکم اتارا گیا ھے اسکی نوعیت اس چیز کی ساخت کے لحاظ سے فرق ھے۔ جیسے دریا، سمندر، یا نباتات کی روح فرق ھے اور انسان کی اسکے جسم کے لحاظ سے فرق۔ یعنی ساری کائنات روحانی طور پر زندہ ھے۔
روح کے تحت بھیجے گئے الہامی اصولوں کو ھم سائنس کے ذریعے سٹڈی کرتے ھیں اور انکے علوم کو فزکس، کیمسڑی ، وغیرہ کے ناموں سے جانتے ھیں۔ غور کی بات ھے کہ سب چیزیں کو کسی ان دیکھی طاقت نے ان اصولوں پر چلنے کا پابند کر دیا ھے۔ یہ ان دیکھی طاقت اللہ کی ھے۔ اور میرے خیال میں یہ کنکشن یا پابندی روح کے ذریعے عمل میں لائی گئی ھے۔ روح کی تشبہہ نا نظر انے والے فیبرک کی ھے جو ھر ذرہ سے منسلک ھے۔
کائنات میں سائنسی الات نہ نظر انے والی انرجی اور مٹیریل کی نشاندھی کرتے ھیں جو کائنات کو پھیلا رھی اور اسکے مادی ذرات اور اجسام کو آپس میں باندھے ھوئے ھیں۔ کبھی اسے ڈارک انرجی یا Dark Matter کہتے ھیں کبھی کچھ اور۔ شاید یہ پردے کے دوسری طرف سے آنے والی روح کے ان دیکھے فیبرکس ھوں۔
روح کو مادی وجود سے کنکشن:
اسطرح خلیہ کو حکم الہی کے ماتحت کر دیا گیا کہ جب مناسب حالات دستیاب ھوں گے تو یہ خلیہ خودبخود ایک جسم کی شکل اختیار کر جائے گا۔ یہ روح یا حکم الہی جسم کے ھر خلیہ میں الہام ھے۔ اور یہی انسانی زندگی ھے۔
اب اس کی مزید باریک تفصیل میں آیات کی روشنی اور طبعی علم کے نالج میں آگے چلتے ھیں۔
عالم غائب( انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والا عالم) پردہ کے دوسری طرف ھے اور اللہ کا حکم یعنی روح ایک انرجی یا نظر نہ انے والی لہروں کی شکل میں جسم کے ھر خلیہ سے منسلک ھے۔
حصہ چہارم میں آیت 22: 50 بتاتی ھے کہ یہ پردہ قیامت کے دن ھٹا لیا جائے گا اور انسان عالم غائب کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکے گا۔ یعنی یہ ایت اس غیبی پردہ کی موجودگی کی تصدیق کررھی ھے۔
اور ایت ( 5 -1 :79) اور حصہ دوم کی دوسری آیات بتاتی ھیں کہ موت کے وقت فرشتے جسم سے ھاتھ بڑھا بڑھا کر اور جوڑ کھول کھول کر جان نکالیں گے۔
میرے خیال میں جان سے مراد روح اور نفس دونوں کی ھے۔ نفس وہ اخلاقی شخصیت ھے جیسے شعور دوران زندگی پختہ کرتا ھے۔ اور یہ نیک یا برائی یا دونوں طرح کی شخصیت بن سکتی ھے۔
یہ ایت دوسرے لفظوں میں اس بات کی نشاندھی کر رھی ھے کہ انسانی روح ھر خلیہ سے پیوند کی گئی ھے۔ کیونکہ اسکو نکالنے سے جسم مردہ ھو جاتا ھے یا خود سے عمل کرنے یا نشونما پانے کی صلاحیت کھو دیتا ھے۔ بالکل اسی طرح اگر اصطلاح کے طور پر ایک ذرہ سے اسکی روح نکال لی جائے تو وہ بھی اپنے کام کو سرانجام دینے کی صلاحیت کھو دے گا۔
انسانی روح انسان کو زندہ وجود بخشتی ھے۔ تاکہ یہ خلیے اپنے آپ کو اپنی ساخت پر قائم رکھ سکے اور مزید خلیے بنا سکیں اور ھر خلیہ ڈی این اے میں درج احکامات کی روشنی میں جسم کی عمارت کے مختلف اعضا کا رول سنبھال سکے۔ موت کے بعد انسانی روح نکال لی جاتی ھے۔ باقی مادی وجود مردہ حالت میں موجود رھتا ھے۔ اس مادی جسم کے ایٹم، مالیکیولز اور ان سے بھی چھوٹے ذرات انفرادی آور اجتماعی پیمانے پر حکم الہی(یعنی اپنی ساخت پر الہام کی گئی روح) سے ابھی تک منسلک ھیں اور اسکے مطابق زمین میں باقی ذرات کی طرح شامل ھو کر کائنات میں اپنا رول ادا کرتے رھتے ھیں
جب حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا گیا تو ڈی این اے کو 46 کروموسومز کی شکل میں مٹی کے اجزا سے بنا کر ایک خلیہ میں بند کرکے خلیہ کو انسانی زندگی یعنی روح انسانی کی انرجی کی ڈوری سےمنسلک کر دیا گیا۔ اب یہ ڈوری خلیہ سے ایک مکمل انسانی جسم بن جانے کے پراسس پر عمل درآمد کراتی ھے۔ یہ انسانی روح کی انرجی یا برقیات سارے نئے بننے والے خلیوں سے جڑتی چلی جاتی ھے اور اسکے تحت تمام خلیے اور ان سے بننے والے اعضا ڈی ان آئے میں لکھی ساخت کے مطابق اپنا اپنا کام سرانجام دینے لگتے ھیں۔ یہ عالم غائب سے جسم کو منسلک کرنے والی روح کی انرجی جسم کے ذریعے ایک ھی مقصد کو سرانجام دینے میں مصروف ھے اور وہ ھے “survival یا زندگی کی بقا”
زندہ رھنے کیلئے سب سے اھم چیز کھانا پینا (رزق) ھے۔ اس کھانے پینے سے ATP بنتے ھیں جو کہ مادی جسم (جیسے مسلز) کو یا اسکے اجزا کو چلانے یا move کرنے کا فیول یا پٹرول ھے۔ جبکہ انسانی روح عالم غیب سے ایک بجلی کا کنکشن جو خلیہ کے انجن کو سٹارٹ کرتی اور جاگتا رکھتی ھے اور ATP مادی جسم کو چلتا رکھتے ھیں۔ میرے خیال میں روح عالم غائب کے انرجی سورس سے زندگی کی برقیات مرتے دم تک مستقل کھنچتی رھتی ھے۔
آیت 12-14: 23 پڑھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ پہلا خلیہ نر یعنی(نطفہ، male ) تھا۔
اب آیت نمبر 1 : 4 کو دیکھیں تو یہاں کہا گیا ھے کہ ایک نفس سے اسکا جوڑا بنایا۔ یہاں عربی لفظ نفس استعمال ھوا ھے( نا کہ جنس جیسا ترجمہ و تشریح کرتے ھوئے لوگ لکھتے ھیں)۔ نفس کا لفظ کیا ھے اسکی وضاحت بعد میں کروں گا۔
جوڑا سے مراد نفس مخالف (نر کا مخالف یعنی مادہ) ھے۔ یعنی حضرت حوا علیہ السلام کی پیدائش کیلئے حضرت آدم علیہ السلام کا ایک خلیہ لیا گیا اور اس میں نر (y) کروموسوم کو تبدیل کر کے مادہ (x) کر دیا گیا اور پھر اس سے عورت کا انسانی جسم ایسے ھی بنایا گیا جیسے پہلے مرد کا۔ یہاں پر غور کرنے کی بات ھے کہ پیدائش کی اس سٹیج پر دونوں کے اجسمام ماں کے پیٹ کے بجائے شاید زمین پر بنائے گئے۔
جب حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش دیکھیں تو شاید حضرت مریم علیہ السلام کے وجود کے اندر ایک مادہ خلیہ میں x کروموسوم کی جگہ y رکھ کر اور کروموسومز کی تعداد پوری کرکے ایک حمل ٹھہرا دیا گیا۔ مگر غور کرنے کی بات ھے کہ آیت ( 66:12 ) بیان کرتی ھے کہ روح پھونکی گئی ( یعنی مکمل خلیہ بننے کے اس عمل کو وجود میں لانے کیلئے جو طریقہ اختیار کیا گیا اس روح پھونکنے سے تشبہی دی گئی )۔
یعنی روح زندگی بخشنے کا طریقہ ھے اور اس ایت سے سمجھ لگتی ھے کہ زندگی کسی بے جان کو یا کسی جاندار چیز کو اپنی نشونما کا اختیار دینا ھے۔ تو سوال پیدا ھوتا ھے کہ جب میں یہ کہتا ھوں کہ کائنات کے ذرات بھی زندہ ھیں کیونکہ وہ اپنی روح کے تحت حکم الہی پر عمل کر رھے ھیں تو کیا یہ ذرات بھی نشوونما پاتے ھیں۔ اسکا جواب مثبت ھے ۔ اور یہ جواب اب سائنسی علم فراھم کر رھا ھے۔
کائنات میں متواتر ذرات کے ٹوٹنے اور جڑنے کا عمل جاری ھے اور نئے ذرارت اور metals اسی کے نتیجہ میں وجود میں اتے ھیں۔ غورکریں قران کہتا ھے کہ اللہ نے لوھا اتارا (57:29 )۔
یہ لوھا سورج جیسے ستاروں کی موت کے عمل کے دوران چھوٹے ذرارت کے ملنے سے ان ستاروں کے اندر کے کور میں بنتا ھے اور پھر ان ستاروں کے پھٹنے سےکائنات میں بکھر جاتا ھے۔ یعنی یہ چھوٹے ذرات بھی اپنی زندگی کی نشونما کا عمل اپنی روح (حکم الہی) کے تحت خاص حالات میسر انے پر اگے بڑھاتے ھیں۔
یعنی جب مناسب حالات میسر ھوں اور تمام شرائط پوری ھو جائیں تو اللہ کے اذن سے کام یا تخلیق وجود میں آ جاتی ھے۔
عالم اسباب اور الہام:
کیونکہ عالم اسباب میں جو قوانین روح کے ذریعے وحی یا الہام کیے گئے اور جن کا بے جان اور جاندار اشیا کو پابند بنایا گیا وہ شرائط پوری کرکے نتیجہ حاصل کرنے کے اصول پر استوار کئے گئے ھیں۔
یعنی ایک دوا پر کسی مرض کی شفا کا حکم الہام کر دیا گیا اب انسان کے شعور پر منحصر ھے کہ وہ اسکو پا لیتا ھے یا کہ نہیں۔ اگر علم حاصل کر کے پا لئے گا تو شفا بھی پا لے گا۔ ھو سکتا ھے کہ کسی اور دوا میں اسی مرض کیلئے نسبتا کم شفا رکھی گئی ھو اور مکمل شفا دعا مانگنے سے لنک کر دی گئی ھے۔
یہی معاملہ دنیا کے ھر معاملے میں ھے۔ یہ میرے خیال میں اسلئے کیا گیا کیونکہ انسان کے ایک ان دیکھے خدا کے آخرت میں جزا و سزا کے وعدہ پر یقین کرکے ایمان لانے کے ٹیسٹ میں پہلی شرط یہی ھو گی کہ خدا کی موجودگی کے معاملے کو مبہم کر دیا جائے۔ تاکہ دیکھا جاسکے کہ عقل و شعور سے کائنات کے نظام اور اپنے وجود کو دیکھ کر نا نظر آنے والے خدا پر کون ایمان لاتا ھے۔
اسلئے حضرت خضر علیہ السلام ایک لڑکے کو قتل کرتے ھیں جو بڑا ھو کر برا بنے گا۔ میرے خیال میں عالم اسباب کے اصولوں نے اسکے ڈی ان ائے میں منکرحق ھونے اور برائی کی بہت بڑی صلاحیت رکھی دی جو مستقبل میں ظاھر ھوتی۔ تو خدا نے حضرت خضرؑ کو اسکے قتل کی دلیل بنادیا۔ اور شاید اس لڑکے کو جو ان گناھوں کا مرتکب ابھی نہ ھوا تھا کو پھر بخش دیا۔ اسطرح اسکے والدین اور دنیا کو اسکے مستقبل کے شر سے بچا لیا۔
اللہ اسکو خود بھی ختم کر سکتا تھا مگر سنت الہی یہی ھے کہ عالم اسباب میں کام دلیل کی صورت میں وقوع پذیر ھو تاکہ اللہ کے وجود کے ھونے یا نا ھونے کا معاملہ تمام انسانوں کیلئے مشتبہ رھے تاکہ انکا ٹیسٹ کیا جا سکے۔ بہت ھی کم مواقعے ایسے ھیں جب اللہ کی طرف سے ڈائریکٹ ایکشن ھوتا ھے اور ایسا عام طور پر کسی قوم کے عذاب کے موقع پر کیا جاتا ھے۔
یعنی عالم اسباب دلیل اور سنت الہی پر ھی چلے گا تاکہ امتحان کی کنڈیشنز متاثر نہ ھوں۔ جیسا کہ ایت (45 : 25 ) میں کہا گیا کہ سورج کو سایہ پر دلیل بنایا۔ اور ایت( 35 :13 ) میں فرمایا کہ جنت کا سایہ دائمی ھے۔ یعنی عالم جنت کے عالم اسباب سے فرق ھے اور وھاں سایہ کیلئے سورج کی دلیل نہ درکار ھو گئی۔ یعنی چیزیں بغیر دلیل کے عالم جنت میں وقوع پذیر ھوں گی۔
شعور ونفس:
دلچسپ بات ھے کہ جس طرح روح ھر خلیہ سے کنیکٹ ھوتی ھے بالکل اسی طرح دماغ ( شعور اور نفس کے ساتھ) اپنے اندر سے اور حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب nerves کے ذریعے اور دل capillaries یا خون کی باریک نالیوں کے ذریعے پورے جسم اور ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ھوتے ھیں۔ یعنی ان سب میں اپس میں گہرا تعلق ھے۔
دنیا میں انسان کو سب سے بڑا دماغ عطا کیا گیا اس میں شعور اور نفس رکھا گیا۔ دماغ میں بے شمار نیوران ھیں، اور بہت سے نیوروٹراسمیٹرز۔ شعور اور نفس برین کی صلاحتیں ھیں۔
شعور انسان کی استدلال یعنی reasoning کرنے کی صلاحیت یا سمجھ ھے۔ اور نفس انسان کا اخلاقی وجود یا اسکی اخلاقی شخصیت ھے۔
نفس کی شخصیت کو شعور زندگی کے نشیب و فراز کے دوران کئے گئے فیصلوں، انتخاب یا چوائسس، اور انکے نتیجہ میں کیے گئے اعمال سے نیکی یا بدی کے راستہ پر استوار اور پختہ کرتا ھے۔
دماغ میں خواھشات ھر لمحہ جنم لیتی ھیں اور شعور کی سوچ بھی ھر خواھش کا تجزیہ کرتی ھے۔ پھر برین دل اور سینہ (نظام تنفس) کے ساتھ آٹو نومک نروس سسٹم اور ھارمونر کے ذریعے لنک ھے۔ یعنی شعور، نفس اور دل و سینہ ایک دوسرے پر اثر انداز ھوتے ھیں۔ یعنی ایک کی حالت میں تبدیلی دوسرے کی حالت پر اثرانداز ھوتی اور سمپٹمز symptoms
ظاھر کرتی ھے۔
حصہ سوئم کی آیت (10 -7 : 91) پر غور کریں کہ اللہ نے نفس کو درست کرکے اس کو اخلاقیات یعنی نیکی اور بدی بتا دیں، پھر کہا گیا کہ جو اسے پاک کرلے تو وہ کامیاب ھے۔ یعنی اللہ نے ھر ایک کے نفس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کر دیا۔ اور کہا گیا کہ جو اسکی نیکی کو بڑھا لے تو کامیاب ھو گا ورنہ ناکام۔ یعنی کسی ایک خاصیت پر عمل کرنے اور اس خاصیت کو مضبوط کرنے کا اختیار شعور یعنی سمجھ کے تخت کر دیا گیا۔
نفس کو پاک کرنے کی ذمہ داری شعور کی ھے۔ اگر شعور اسے پاک کر لے گا نفس پاک ھو گا تو دل و سینہ پر بھی اسکے نیک اثرات نمودار ھوں گے اور وہ بھی پاک ھوجائیں گے۔ یعنی نیکی کی لائن یعنی صراط مستقیم یعنی ھدایت پر لگ جائیں گے۔ اگر نفس کی برائی کو شعور لگام نہیں دے پائے گا تو نفس شعور اور دل و سینہ سب کو اپنی بدی کی لائن پر لگا لے گا اور سب الودہ ھو جائیں گے۔
یعنی تزکیہ نفس اصل میں شعور کے ذریعے نفس کی اچھائی کو اسکی برائی پر غالب لانے کا امتحان ھے۔ دل و سینہ جس کو بعد میں ڈسکس کروں گا اصل میں اس جدوجہد کے نتیجہ میں پیدا ھونے والی جذباتی کیفیات کے ظہور پزیر ھونے کی جگہیں ھیں۔ میرے خیال میں تزکیہ نفس کے یہ تمام الات ( شعور، نفس، دل، سینہ) اگر کسی ایک راستے پر قائم ھوں ( صراط مستقیم یا غلط راستہ) تو اس راستے سے تبدیلی دل وسینہ پر بوجھ، تنگی اور مختلف جزباتی اور autonomic سمپٹمز کے ظہور کا باعث بنتی ھیں جو نفس و شعور کی جنگ میں کسی ایک کو کمزور اور دوسرے کو طاقتوار بنا دیتے ھیں۔ اگر تمام الات صراط مستقیم پر ھوں تو یہ نفس ( شخصیت) مطمئن ھے۔
دلوں پر مہر یا ٹھپا لگ جانا کی کیفیت اسکی دوسری انتہا ھے۔ یعنی یہ لوگ صحیح بات، اور نشانیاں سنتے، اور دیکھتے ھیں مگر انکے نفس و شعور دنیا میں اتنے مگن ھو گئے ھیں کہ بار بار دل و سینہ میں ابھرنے والی جزباتی کیفیات یا وارننگ سائنز جو برائی کے نتیجہ میں ظہور پذیر ھوتی ھیں کو نظر انداز کرنے کا عمل جاری رھتا ھے حتی کہ اللہ انکے دل و سینہ میں ابھرنے والے وارننگ سائنز کو ختم کر دیتا ھے۔ اسے دل مردہ ھونے، یا گونگے، اندھے، یا بہرے ھونے سے تشبہہ دی گئی ھے۔ یعنی اللہ نے انکو اخرت میں عذاب دینے کا فیصلہ کر لیا ھے اور ھدایت انکو نہیں مل سکتی۔ اب انکو کوئی نہیں بچا سکتا۔
حصہ سوئم کی آیات پر مزید غور کریں تو الفاظ ھیں ” نفس پر ظلم، نفس میں حرص، وسوسے جو نفس سے گزرتے ھیں” ۔ یعنی شیطان اور دوسرے اسی نفس میں وسوسے ڈالتے ھیں۔ اور نفس میں لالچ اور دوسری برائیاں بھی ھیں۔ اگر انسان اپنے شعور کو خواھشات نفس کے طابع کر ڈالے تو یہ نفس پر ظلم ھے کیونکہ اس طرح کے نفس رکھنے والے کو اخرت میں سزا ملے گی۔
30 :5 آیت بیان کرتی ھے کہ ” اسکےنفس نے اسے قتل پر راضی کر لیا”۔ یعنی نفس نے شعور کو قتل کرنے پر راضی کیا اور شعور نے نفس کی اس بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے کہ یہ ایک غلط قدم ھے اسے قتل کر ڈالا۔ یہ مثال ھے نفس کے شعور پر غالب آنے کی اور اس غلبہ کی اجازت شعور خود عطا کرتا ھے کیونکہ شعور خواھشں نفس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا۔
قران پاک میں فرمایا گیا کہ قیامت کے دن سوال کیا جائے گا کہ جب تمھارے پاس میری ایات ائیں تو کیوں نہ تم نے ان کا علمی احاطہ کیا ( 85 – 82 : 27)
یعنی آیت اس بات کو صاف طور پر بیان کرتی ھے کہ شعور کیلئے چیزوں کا تجزیہ، کریکٹیکل تھینکنگ، غور وفکر،اور دلائل جیسا علم پختہ ایمان لانے اور نفس سے جنگ جتینے کیلئے انتہائی ضروری ھیں۔
( 96:15-16 ) آیت پر غور کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ ھو سکتا ھے کہ شعور اور نفس انسانی کی پیشانی سے منسلک ھوں یعنی دماغ کا فرنٹل لوب۔ اسلئے سجدہ پیشانی سے کیا جاتا ھے کہ انسان اپنا شعور اور نفس دونوں اللہ کے سامنے عاجزانہ طور پر زمین پر رکھ دیتا ھے۔
نفس و شعور کی کشمکش اور حالت نیند یا موت:
میرے خیال، مشاھدہ اور تجربہ میں نفس اور شعور میں ھر لمحہ کشمکش کا عالم رھتا ھے۔
دنیا کا امتحان ھر لمحہ کا امتحان ھے۔ نفس میں وسوسے، نیک اور بد خیالات، سوچیں، فکریں وغیرہ ھر وقت آ رھی ھوتی ھیں اور شعور متواتر اسکے تجزیہ میں مصروف ھے۔ انکھیں، کان، اور حواس خمسہ اس میں اپنی اپنی انفارمیشن ھر وقت ڈال رھے ھیں۔ اب جو شعور (ایمان) کے ساتھ نفس کی اچھی باتوں کو ابھارتا اور بری باتوں کو دبا لیتا ھے وہ اخرت میں اپنی کارکردگی پر مطمئین نفس ھوگا(ایت 28- 27 : 89)
اس ھر لمحے ھونے والی شعور اور نفس کی جنگ شعور و نفس دونوں پر اور جسم پر بہت بوجھ ڈالتی ھے۔ میرے خیال میں اسلئے رات کو آرام کا ذریعہ قرآن پاک میں بتایا گیا۔ جب انسانی گہری نیند سو جاتا ھے تو اسکے نفس (شخصیت ) کو روح کے کنکشن کی ذریعے عالم غائب میں سلب کر لیا جاتا ھے۔ اور شعور کو اس جنگ سے نجات مل جاتی ھے اور شعور پرسکون نیند میں چلے جاتا ھے۔ اس نفس کو قبض کرنے کے عمل کو قرآن میں وفات ( 42 : 39 ) سے تعبیر کیا گیا ھے۔ اس دوران روح جسم کے تمام خلیوں سے کنکٹ رھتی ھے اور انسان زندہ ھوتا ھے۔ نیند کے آخر میں یا نیند میں خلل کی صورت میں نفس واپس لٹا دیا جاتا ھے اور انسان جاگ اٹھتا ھے۔ اگر موت آگئی ھے تو انسان کا نفس سلب کرنے کے ساتھ روح بھی ھر جوڑ یا حصہ یا خلیہ سے علیحدہ کرکے قبض کر لی جاتی ھے ( 42 : 39 )( 5 -1 :79)۔
اسطرح موت واقعہ ھو جاتی ھے۔
انسان اپنے نفس میں نیکی یا بدی کو بڑھانے کا فیصلہ شعوری طور پر کرتا ھے اور میرے خیال میں نفس انسانی کی شخصیت کی غمازی کرتا ھے۔ میرے خیال میں جب نیند کے دوران اسکو سلب کیا جاتا ھے تو اس کی نیکی اور بدی کا تناسب عالم غائب میں ریکارڈ کرلیا جاتا ھے۔ میرے خیال میں شعور یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دماغ کی اصل طاقت ھے۔ اسلئے اس کا انحصار دماغ کے سائز پر ھے۔ انسانی دماغ کا سائز تمام جانوروں سے بہت زیادہ بڑا ھے اور اسلئے انسان میں شعور یا عقل سب سے زیادہ ھے۔ موت آنے پر شعور دماغ کے ساتھ ھی ختم ھو جائے گا اور روح اور نفس نکال لیا جائے گا۔ روح و نفس بغیر شعور کے صرف زندگی اور شخصیت کے ریکارڈ کی حثیت رکھتا ھے ،اس میں بغیر شعور کے جاگ اٹھنے کی صلاحیت نہیں ۔ اسلئے قرآن میں کفار کے بارے میں بیان ھے کہ وہ قیامت کے روز کہیں گے کہ ھم تو سوئے پڑے تھے ھمیں کس نے جگا دیا ( 1: 36)۔ یعنی وہ موت کی حالت میں بغیر شعور کے پڑے رھے۔
لیکن موت کے بعد شہدا کے زندہ ھونے کا بیان قرآن پاک میں ھے ( 154 : 2) لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ ھمیں انکی زندگی کی سمجھ نہیں۔ میرے خیال کے مطابق انکے شعور یعنی جاگ اٹھنے کی صلاحیت کو روح ونفس کے ساتھ سلب کرکے علم غائب میں کسی شکل میں رکھ لیا جاتا ھے اور رزق وآجر موت کے فورا بعد ھی ملنے لگ جاتا ھے ۔ یعنی ان کے جنت میں جاننے کیلئے حساب کی ضرورت نہیں۔ یہی معاملہ انبیاء اور صالحین کے ساتھ ھو گا۔ یہ سبقت لے جانے والوں کی جماعت ھے۔
اسی طرح گناہ عظیم کے مرتکب لوگ جیسے فرعون کو قران کے مطابق ھر روز آگ پر پیش کیا جاتا ھے یعنی اسطرح کے لوگوں کا شعور بھی روح و نفس کے ساتھ سلب کیا جاتا ھے تاکہ عذاب کا عمل شروع کیا جا سکے۔ کیونکہ یہ ھر صورت میں جہنمی ھیں اور حساب کی ضرورت نہیں۔
باقی سارے لوگ قیامت کے دن اپنے شعور کے بیداری کے ساتھ بیدار ھو گے۔ ھر آدمی کے اجزائے ترکیبی اور ڈی ان اے کا نالج عالم غائب میں کتاب میں موجود ھے ( 4 :50)۔ میرے خیال میں پہلے انسان کی پیدائش کی طرح قیامت کے دن تمام انسانوں کے جسموں کی زمین کی سطح پر پیدائش ھو گئی نا کہ ماں کے پیٹ میں۔
الہام کی اقسام اور شعور سے فرق:
حصہ چہارم میں کچھ آیات وحی یا الہام کے بارے میں ھے۔ الہام سے مراد یعنی غیر شعوری طور پر کسی بات کا سمجھ میں آ جانا یا intuition
(Intuition: the ability to understand something immediately, without the need for conscious reasoning.)
انسان علم اور تجربہ کی بنیاد پر اپنے شعور میں پہلے والی باتوں کا حل محفوظ یا رجسٹر کر لیتا ھے اور دوبارہ وھی چیلنج یا اس سے ملتی جلتا کوئی اور چیلنج سامنے آتا ھے تو وہ پہلے تجربہ کی بدولت فورا اسکا حل نکال لیتا ھے۔ یہ الہام یا وحی نہیں بلکہ حکمت و دانائئ ھے۔
الہام کی دو اشکال میری سمجھ میں ائی ھیں ۔ ایک جو حصہ چہارم میں شہد کی مکھی ( 68: 16) یا اسمان والی ایات میں ھے۔ اور دوسرا اسی حصہ کی آیت( 51 : 42)میں ھے۔
شہد کی مکھی کا جسم شہد بنا سکتا ھے مگر اسے کیسے پتہ چلتا ھے کہ اس نے پھولوں سے رس نکال کر شہد بنانا ھے؟ اسطرح سورج یا زمین کو کیسے معلوم کہ کس طرف گردش کرنی ھے؟
یعنی قانون الہی کا اطلاق۔ اسے جبلت بھی کہا جا سکتا ھے۔
جبلت کے قوانین کی انفارمیشن چیزوں پر شروع سے ھی الہام کر دی جاتئ ھے یعنی روح کے ذریعے۔ یعنی مکھی کے جسم میں شہد بنانے کی خصوصیت رکھ کر اس پر شہد بنانے کے طریقہ کی جبلت وحی کی گئی۔ یہ بنیادی الہام شاید روح کے ذریعے عالم غیب سے اتا ھے۔ اور یہ ھر جانور کی ساخت اور کام کے لحاظ سے مختلف ھے اور اس نسل کے ھر جانور میں پیدائشی موجود ھوتا ھے۔
دوسری صورت آیت (51 : 42) میں بیان ھے جہاں مختلف طریقوں سے انسان تک غائبئ بات پہنچانے کے طریقہ بتائے گئے ھیں۔
سب سے کامن طریقہ یکایک صحیح خیال کا پیدا ھونا ھے۔ ھو سکتا ھے کہ یہ روح کے فیبرکس کے ذریعے آتا ھو یا کسی دوسرے طریقہ سے۔ جس طرح شیطان نفس میں وسوسے ڈال سکتے ھیں اسطرح شعورو نفس میں صحیح بات ڈالنے کا بھی رحمان کا بھی انتظام موجود ھے ۔ انبیاء سے خدا نے کلام کیا یا فرشتوں کے ذریعے وحی بھیجی گئی مگر عام انسانوں یا نیک لوگوں کیلئے شعورونفس میں بات ڈال دینے کا طریقہ ھے۔
آیت (79-78: 21) میں حضرت داود علیہ السلام کے بجائے حضرت سلیمان علیہ السلام کو فیصلہ سمجھا دیا گیا۔ یعنی وحی یا الہام شاید روح کے ذریعے عالم غائب سے نفس و شعور تک پہنچا دیا جاتا ھے اور نیک لوگوں میں سے خدا خود چنتا ھے کہ وہ کس کو ایسی سمجھ دے۔ الہام کے برعکس عقل ( شعور کو استعمال کرنے کی صلاحیت) مختلف ھے کہ الہام میں صحیح راستہ یا فیصلہ، بغیر کوئی وقت سوچنے یا دلائل پر صرف کئے، شعور میں اچانک رونما ھو جاتا ھے۔ اور انسان کا شعور فورا سمجھ لیتا ھے کہ یہی بہترین فیصلہ یا حل ھے۔
اس سے سوال یہ بھی اٹھتا ھے کہ معجزات کیا ھیں۔ قرآن معجزات کو اھمیت نہیں دیتا اسکا اندازہ آیت (40 :27) میں ھے کہ کتاب کا علم رکھنے والا شخص اتنا طاقتور تھا کہ پلک جھپکنے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے تخت لا دیتا ھے مگر اس شخص کو اور بہت سے طاقتور جنات کو اللہ نے انکی تمام طاقتوں کے باوجود حضرت سلمان علیہ السلام کے کنٹرول میں دے دیا تھا کیونکہ نبی علیہ السلام تقوی میں ان سے بڑھ کر تھے اور تقوی ھی اللہ سے قریب کرتا ھے معجزات نہیں۔
آیت(31 : 13) پڑھیں تو پتہ لگتا ھے کہ اگر اللہ چاھتا تو قرآن کے زور سے بہت سے معجزات نمودار کر سکتا تھا مگر مشیعت الہی یہی ھے کہ شعوری طور پر یقین الہی کرکے نفس کی پاکی کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرنا بہتر ھے۔
اپنے شعور کے زور بازو سے نفس میں بدی کی نشاندھی کرنے کی خاصیت بنائی چاھیے۔ پھر اس بدی کا تدارک بھی شعور کی قوت سے زبردستی کریں۔ ایسا متواتر کرنے سے شعور طاقتور، نفس نیک اور دل و سینہ میں دائمی اطمینان انے لگے گا۔ اور انکی جزباتی کیفیت و ردو بدل کی تکلیف سے نجات ملنے لگے گی۔ اور نئی ازمائش انے کی صورت میں اسکے بارے میں تزکیہ نفس اسان ھوتا چلا جائے ھے۔
اسطرح نفس میں نیکی میں اضافہ کرکے اسے اپنے قابو میں لانا اور نفس مطمئن بنانا ھی اصل ازمائش ھے۔
دل اور صدور (سینہ یا نظام تنفس):
( ریفرنس حصہ 5)
دل اور سینہ یا نظام تنفس جزبات اور احساسات کے جسمانی ظہور کی جگہیں ھیں۔ یہ مادی اور روحانی وجود کا وارننگ سسٹم ھے۔ یہ مادی طور پر autonomic nervous system کے ذریعے اور مختلف ھارمونز کے اثر کے تحت چلتا ھے اور لمحہ با لمحہ تبدیلی کے اثر سے گزرتا ھے۔دل و سینہ کے بارے میں کچھ پہلے لکھا ھے۔ یہ حصہ اسکی کچھ مزید ڈیٹیل ھے۔
دل کی مختلف کیفیات کے بارے میں بہت سے آیات ھیں۔ دل کے بارے میں قرآن میں دو الفاظ استعمال ھوئے ھیں۔ ایک ھے قلب/قلوب جس کا مطلب ھے دل جس میں تبدیلی کی صلاحیت ھو۔ دوسرا ھے فواد جو جذبات (لفظی مطلب شعلہ) کی کیفیت سے گزرتے دل کیلئے استعمال ھوتا ھے۔ ایک اور اصطلاح صدور یعنی سنٹر یا مرکز بھی استعمال ھوئی ھے جسے کا مطلب میرے خیال میں سینہ یا نظام تنفس ھے۔ سینہ اسلئے کہ تنگی یا بوجھ، ذاتی اور انسانی تجربہ کی بنیاد پر، یہیں پر محسوس ھوتا ھے۔ تنگی یابوجھ کی وضاحت اگے چل کر اس تحریر میں کروں گا۔
مختلف ترجمہ کرنے والوں نے اکثر قلب، فواد، صدور اور حتی کہ نفس کا اکثر جگہ ترجمہ دل ھی کیا ھے جو پڑھنے والے کے ذھین میں کنفو ژن پیدا کرتا ھے۔ اور اکثر ترجمہ اور تفسیر کرنے والے دل اور سینوں کے بارے میں قرآن آیات کو شعور اور نفس کی آیات سے مکس کر دیتے ھیں اور دل کے رول کی مکمل وضاحت مشکل ھو جاتی ھے۔ سائنسی طرح پر یہ تو پتہ ھے کہ انسان کا شعور دماغ میں ھے لیکن کئی علما اب بھی اس بات پر قائم ھیں کے انسان کا شعور اور نفس دل میں ھے۔
سائنس اور عام مشاھدہ یہی بتاتا ھے کہ شعور یعنی استدلال یا reasoning کی صلاحیت دماغ میں ھے اور نفس یعنی خواھشات کا ظہور بھی دماغ میں ھوتا ھے۔ ایات ( ریفرنس1، 2،3 ) کے مطابق مخفی بات اور سوچ کا ظہور نفس میں ھوتا ھے۔ پتہ چلتا ھے (ریفرنس 2) کہ نفس کی خواھشات کی پیروی کرنے والوں کے دل روحانی طور پر بیمار ھوتے ھیں کیونکہ اسطرح کے دل برائی اور بے ایمانی کی حالت پر وارننگ دینے کی صلاحیت کھونے لگتے ھیں ۔ یعنی نفس کی خواھشات نہ صرف شعور بلکہ دل کے ایمان و اچھائی سے دوری ھونے پر قدرتی وارننگ دینے والے سسٹم کو بھی مسخر کر لیتی ھے۔ اور ایسا دل عارضی اطمینان صرف خوآھشات نفس کی پیروی میں پاتا ھے۔ اسےبیمار دل کہا گیا ھے۔
ایت (ریفرنس 4، 7) سینوں کی تنگی کا بیان کرتی ھیں اور دونوں میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کیا گیا ھے کہ اپ کا سینہ کتاب کے بوجھ سے یا لوگوں کی باتوں سے تنگ نہ ھو۔ مشاھدہ ھے کہ سینے کی تنگی ایک کیفیت کا نام ھے جو انسان پریشانی کے عالم میں بوجھ کی شکل میں سینہ میں محسوس کرتا ھے۔ اس کیفیت میں سینہ یا نظام تنفس پر بوجھ محسوس ھوتا ھے۔ یہ بوجھ اسوقت محسوس ھوتا ھے جب انسان کے پاس کسی بات، عمل، یا کسی سوال کی جوابی دلیل نہ ھو۔ ایت ( ریفرنس 4،7) میں اسی بات کو بیان کیا گیا ھے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوابی دلیل قران کی شکل میں دے دی گئی ھے اور رسالت کا مقصد صرف حق کی نصیحت کرنا ھے اور ان دلائل کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ تنگ نہ ھو گا۔ عام انسان زندگی میں یہ بوجھ کی کیفیت اکثر محسوس کرتا ھے۔ جیسے خوف یا پریشانی کے عالم میں، یا جب اسکے اندر کے تعصب (long held believes or prejudices without good evidence to support these ) کو چیلنج کیا جاتا ھے تو غرور نفس کے تحت سینہ کا بوجھ بڑھ جاتا ھے اور اس سینہ کی بڑائی یا فخر کی کیفیت ایت (ریفرنس 6 ) میں بیان کر دی گئی ھے۔ اسکے علاوہ سینہ پر بوجھ خوآھش نفس کی پیروی کرنے پر بھی ظاھر ھوتا ھے۔ مثلا اگر شعور علم کی بنیاد پر یہ جانتا ھے کہ نفس کی خواھش دراصل کسی پر ظلم و زیادتی کی خواھش ھے یا شہوت کی خواھش ھے اور ایسا نہیں کرنا چاھئے تودل اور سینہ یا نظام تنفس اس خواھش کی پیروی کرنے کے شعوری فیصلہ کے نتیجے میں دباو اور خوف کا شکار ھو جائیں گے۔ مگر اگر اس خوآھش کی پیروی متواتر جاری رھے تو آہستہ آھستہ یہ بوجھ اور خوف ختم ھو جاتا ھے کیونکہ اب خواھش نفس نے دل و سینہ کے درعمل کرنے کی صلاحیت کو اسطرح مسخر کر لیا جس طرح اسنے شعور کو اپنا غلام بنا لیا۔
ایت (ریفرنس 16) میں اسی چیز کو دل اور سینہ کے لحاظ سے بیان کیا گیا ھے کہ انکھیں اندھی نہیں ھوتیں بلکہ دل اندھے ھو جاتے ھیں جو سینوں میں ھیں۔ یعنی دل ردعمل یا ریکٹ react یا خطرہ کے الام بجانا کرنا چھوڑ جاتے ھیں۔
اگر ایمان رکھنے والا شعور انسانی نفس کو اپنا مطیع کر لے اور اسکی برائی، تعصب یا شہوت کو اپنی سمجھ، علم، اور دلائل کی طاقت سے دباتا چلا جائے تو نفس میں نیکی بڑھتی جاتی ھے اور دل اور سینہ شعور کے ذریعے نفس میں بڑھتی نیکی کے طابع ھو جاتے ھیں۔ اور دیرپا اطمینان حاصل ھوتا ھے۔ سینہ کا بوجھ ختم ھو جاتا ھے اور اس کیفیت کو اللہ نے سینہ اسلام کیلئے کھولنے سے ایت (ریفرنس10) میں تعبیر کیا۔ یعنی اس حالت میں سینہ ھدایت کی نئی انفرمیشن کے ملنے پر اپنے نفس کی برائی اور تعصب کے بوجھ تلے نہیں دبتا ۔ اسطرح شعور کی ساری توجہ ملنے والی ھدایت کے تجزیہ میں پوری طرح مصروف ھو جاتی ھے جس سے قوت ایمانی، اور حکمت و دانائی میں اضافہ ھوتا چلا جاتا ھے۔
آیات (ریفرنس 12، 13، 14) میں شعور کو ڈسکس کیا گیا ھے۔ فرمایا گیا کہ نصیحت وھی مانتے ھیں جو عقل رکھتے ھیں؛ کیا علم اور بے علم برابر ھو سکتے ھیں؛ سمجھتے وھی ھیں جو عقل رکھتے ھیں۔
ظاھر ھے کہ عقل ھر ادمی کے پاس ھے اور یہاں مراد اسکے استعمال سے ھے۔ یعنی منکریں حق ایمان لانے کے موضوع پر اپنی عقل استعمال نہیں کرتے ۔ علم کا حاصل کرنا عقل کے استعمال کو اسان بنا دیتا ھے ۔ جبکہ عقل کے استعمال سے مراد غوروفکر، تجزیہ، دلیل، اور استدلال ھے۔ یہ سب شعوری خصوصیات ھیں۔ لوگ ایمان لانے یا نہ لانے کے سوال پر عقل یعنی شعور کا استعمال عموما اپنی دنیاوی خواھشات نفس کے چھن جانے کے خوف سے یا نفس کے تعصب کی بدولت نہیں کرتے۔ اور ایات کا علمی احاطہ کرنے کی کوئی کوشیش نہیں کرتے۔
ایمان لانا یا نا لانا ایک چوائس ھے جس کو انسان شعوری طور پر اپناتا ھے۔ ایت (ریفرنس65، 64) کے مطابق خدا انسان ( یعنی اسکے شعور و نفس ) اور دل کے درمیان حائل ھے اور یہ کہ ھدایت اسکو ملتی ھے جو اسکی خواھش رکھتا اور اسکے لیے کوشیشں کرتا ھے۔ اسطرح جو انسانی شعور ھدایت کیلئے جدوجہد کرتا ھے تو اللہ اسکے دل کو نفس کی برائی اور تعصب کے تغیرات کے شر سے پیدا ھونے والے ردعمل کے مقابلے میں مضبوط کرنا شروع کر دیتا ھے اور اسکی اس عمل میں مدد کی جاتی ھے۔
اسطرح اپنے متواتر برے اعمال کی بدولت جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ھے ،یعنی عذاب کا فیصلہ چسپاں کر دیا گیا ھو، اگر وہ کبھی کوئی نشانی یا ایمان کی بات دیکھ یا سن بھی لیتے ھیں تو اللہ انکے دلوں کو مضبوط نہیں کرتا یعنی وہ راہ راست سے روک دیئے جاتے ھیں۔ اسطح اللہ جسے چاھتا ھے ھدایت دیدتا اور جسے چاھتا ھے گمراھی میں پڑا رھنے دیتا ھے۔ اور ھدایت صرف اسکو دیتا ھے جس کے شعور میں بھلائی ھو یا جو اسکو پانے کی کوشش کرے۔
اسکے علاوہ ایات( ریفرنس 15 سے 65) تک کا مطالعہ کریں تو اوپر بیان کئے تصور یا concept کے تحت دل کے مختلف جزبات یا احساسات کی حالتوں کی وضاحت کی جا سکتی ھے۔ ان ایات میں دل کےخوف، سختی، مضبوطی، الودگی، زنگ، تسکین، اور نفرت وغیرہ شامل ھے۔ یہ سب خواھشات نفس اور نفس کے تعصب کے بڑھنے اور انکے شعور و دل پر غلبہ پانے کے نتیجہ میں رونما ھوتیں ھیں۔ اسکے نتیجہ میں دل کا وارننگ سسٹم خرابی سے دورچار ھو جاتا ھے۔
اسلئے جب کہتے ھیں کہ دل نہیں مانتا یا میں دل سے سوچتا ھوں تو اسکا مطلب یہ ھوتا ھے کہ جب دل وسینہ کسی بات کے نتیجہ میں ردعمل ظاھر کرتے ھیں اور ان پر بوجھ اور خوف کی کیفیت طاری ھوتی ھے تو شعور اس بات کا علمی تجزیہ کرنے کے بجائے فورا وہ بات مان لیتا ھے جس سے دل پر طاری یہ کیفیات ختم ھو جائیں۔ چاھئے وہ بات غلط ھی کیوں نہ ھو۔ یعنی دل اصل میں نفس کے انڈر ھوتا ھے۔ اگر نفس میں نیکی بھری ھے تو دل بدی کی بات پر ردعمل ظاھر کرے گا۔ اگر نفس میں بدی بھری ھے تو دل نیکی کی بات پر ردعمل ظاھر کرے گا۔ اگر نفس میں کبھی نیکی اور کبھی بدی ھے تو دل کا ردعمل متغیر یعنی variable ھو گا۔ اسکے علاوہ دل نفس میں موجود متعصب سوچ کے خلاف بات پر بھی ردعمل ظاھر کرے گا۔ یہی ردعمل سینوں یا نظام تنفس میں ظہور پذیر ھوتا ھے۔
ایسے موقع کو پہچاننا اور اس پر ایک قدم پیچھے ھٹ کر شعور کے تحت جائزہ لینا چاھئے۔ شعور کو نیکی کی دلیل اور انصاف پر فیصلہ صادر کرنا چاھئیے۔ متواتر اسطرح کی پریکٹس سے نفس اور دل پر شعور کو اختیار حاصل ھو جاتا ھے۔ اور نفس کی نیکی میں اضافہ ھونے لگتا ھے۔
روحانیت میں جس دل کو کمال حاصل ھے وہ دل اصل میں نیک نفس کے ماتحت ھوتا ھے اور شعور کا ان دونوں پر کنٹرول ھوتا ھے۔ اور یہ دل نیک بات پر پرسکون اور برائی بات پر اضطراب کا شکار ھو جاتا ھے اور اسطرح شعور کو اس بات کی ارلی وارننگ early warning جاری کر دیتا ھے کہ اگے خطرہ ھے، نفس کو روک لو اور سوچو کہ کہیں گناہ تو نہیں ھونے لگا۔
خلاصہ:
روح عالم غائب سے (جو عالم حاضر سے ایک نظر نا آنے والے پردہ کے ذریعے الگ ھے) ھر ذرہ کیلئے کنکشن ھے۔ اور کائنات کے ھر ذرہ کو اسکے وجود کی زندگی بخش رھی ھے اور اسے کام میں لگائے ھوئے ھے۔ ذرات کی بنیادی ارواح کو انسانی جسم کی روح (حکم الہی ) کے تابع کر دینے سے یہ ذرات انسان خلیہ اور پھر انسانی وجود کی شکل اختیار کرتے چلے جاتے ھیں۔ اور انسانی روح جسم کے ھر خلیہ سے لنک ھوتی جاتی ھے اور دیکھنے، سننے، اور سوچنے والا زندہ وجود قائم ھو جاتا ھے۔
نفس میں اچھی یا بری خواہشات کا ظہور ھوتا رھتا ھے۔
نفس نشونما پا کر شخصیت اور اسکا attitude بن جاتا ھے اور اس میں جبلت بھی ھے۔ نفس ھر حیوان میں موجود ھے۔
شعور نفس کی اچھائی اور برائی کی اخلاقیات کو پہچاننے اور تبدیل کرنے کی صلاحیت ھے۔
شعور زمین پر سب حیوانی مخلوقات میں سب سے بڑھ کر صرف انسان کو عطا کیا گیا ۔
دنیا میں ٹیسٹ یہ ھے کہ انسان شعور کو استعمال کر کے اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتا ھے کہ نہیں۔
نفس کی اپنی نیکی اور بدی کے علاوہ شیطان اور اسکے پیروکار ،انسان و جن ، مخلتف علوم جن کو جادو بھی کہہ سکتے ھیں کے ذریعے نفس میں وسوسے بھی ابھارتے ھیں۔ اور خدا اس پر نیکی اور سیدھا راستہ الہام بھی کرتا ھے۔
اگر شعور ان وسوسوں کی پیروی کرے یا نفس کی اپنی خواہشات کی پیروی کرے تو نیکی کے رستے سے انسان بھٹکنے لگتا ھے۔ دل و سینہ ( نظام تنفس) اس جنگ کے دوران پیدا ھونے والے اثرات، کیفیات، یا وارننگ سائنز کے مادی طور پر ظہور پذیر ھوے کا ذریعہ ھیں ۔
اصل جنگ شعور اور نفس کی ھے۔ انسانی روح کا تعلق اجزا کے ذریعے انسانی وجود کو صرف زندہ کرنے اور قائم رکھنے ( بقا کی جبلت کے الہام کے تحت) سے ھے۔ مثال کے طور پر روح اس وجود کو تب بھی زندہ رکھتی ھے اگر یہ اپنا شعور اور نفس کی اخلاقیات کسی بیماری جیسے ڈمنشئا (dementia ) میں کھو دے۔
(واللہ اعلم)
ریفرنسز: حصہ اول تا چہارم
2: 255
اللہ وہ (ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور سب کا نگہبان ہے،
6: 38
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں اور نہ کوئی پرندہ جو اپنے دوپروں پر اڑتا ہے مگر یہ تمہاری ہی طرح کی امّتیں ہیں۔ہم نے کتاب میں کوئی چیز بھی نظر انداز نہیں کی۔ آخر وہ اپنے ربّ کی طرف اکٹھے کئے جائیں گے(یحشرون)
حصہ اول: پیدائش سے متعلق ایات
17: 85
اور یہ (کفّار) آپ سے روح(روح) کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: روح میرے رب کے امر(حکم) سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے،
38: 72
پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی روح(روح) پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا
15: 29
پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی روح(روح استعمال ھوا ھے) پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔
32: 7
وہی جس نے ہر چیز کو جسے اس نے پیدا کیا بہت اچھا بنایا اور اس نے انسان کی پیدائش کا آغاز گیلی مٹی سے کیا
32: 8
پھر اس نے اس کی نسل ایک حقیر پانی کے نچوڑ سے بنائی۔
32: 9
پھر اُس نے اُسے درست کیا اور اُس میں اپنی روح(رو ح) پھونکی اور تمہارے لئے اس نے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ بہت تھوڑا ہے جو تم شکر کرتے ہو
23: 12-14
اور البتہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا . پھر ہم نے اسے حفاظت کی جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا. پھر ہم نے نطفہ کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنائی پھر ہم نے اس بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے ایک نئی صورت میں بنا دیا، سو اللہ بڑی برکت والا سب سے بہتر بنانے والا ہے
76: 3
بے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب(مخلوط) بوند سے پیدا کیا، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا
4: 1
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس ( نفس) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
41: 53
عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
66: 12
اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح( روح) پھونکی
حصہ دوم: وفات اور موت سے متعلق ایات
3: 185
ہر نفس (نفس) موت کا مزہ چکھنے والا ہے
39: 42
اللہ نفس (عربی لفظ نفس ھے قرآن پاک میں) کو وفات (یتوفی، ،قبض کرلیتا ھے) دیتا ھے انکی موت کے وقت۔ اور جو نہ مریں انہیں انکے سوتے میں ، پھر جس پر موت کا حکم فرما دیتا ھے اسے روک رکھتا ھے اور دوسری ایک معیاد مقرر تک چھوڑ دیتا ھے۔ بے شک اس میں ضرور نشانیاں ھیں سوچنے والوں کیلئے
6: 60
اور وہ ایسا ہے کہ رات میں تمہیں ( یعنی ذات، روح یا نفس نہیں استعمال ھوا) ( یتوفا ۔۔۔ استعمال ھوا ھے) قبض کر دیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے تاکہ میعاد معین تمام کر دی جائے پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے
6: 61
اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آ پہنچتی ہے،
(؟روح یا نفس۔۔۔دونوں نہیں استعمال ھوئے، توفتھ استعمال ھوا ھے) ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے
6: 93
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔ یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب خدا نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں(، نفس ، جُوٓا اَنْفُسَكُمُ)
آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے
75: 30-26
دیکھو جب (جان) گلے تک پہنچ جائے(كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ )
اور لوگ کہنے لگیں (اس وقت) کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہےاور اس نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہےاور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائےاس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف چلنا ہے
56: 83-85
پھر کس لیے اسے (روح یا نفس استعمال نہیں ھوا) روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے۔ (فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ) اور تم اس وقت دیکھا کرتے ہو۔اور تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے
79: 1-5
ڈوب کر سختی سے کھینچنے والوں کی قسم! (1) بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم! (2) اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم! (3) پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم! (4) پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم (5)
7: 37
پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر بہتان باندھے یا اس کے حکموں کو جھٹلائے، ان لوگوں کا جو کچھ نصیب ہے وہ ان کو مل جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کے ہاں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کو قبض (یتوفونھم ) کرنے کے لیے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے اللہ کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے تھے، کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہو گئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کرنے لگیں گے۔
16: 27
یہ وہ لوگ ہیں کہ فرشتوں نے ان کی ایسی حالت میں (جان) قبض (یتوفاھم ) کی تھی کہ وہ اپنے نفس (انفسھم، یعنی اپنے نفس پر) پر ظلم کر رہے تھے، پھر وہ صلح کا پیغام بھیجیں گے کہ ہم تو کوئی برا کام نہ کرتے تھے، کیوں نہیں بے شک اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے۔
حصہ سوئم: زندگی کے دورانیہ سے متعلق ایات
91: 7-10
اور نفس(نفس استعمال ھوا ھے) کی(قسم) اور اس کی جس نے اس کو درست کیاپھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی ، بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کر لیااور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا
4: 128
اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے لڑنے یا منہ پھیرنے سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح سمجھوتہ کر لیں، اور سمجھوتہ بہتر ہے، اور (انسان کے) نفس ( نفس) میں حرص تو ہوتی ہے، اور اگر تم نیکی کرو اور پرہیزگاری کرو تو اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے۔
65: 1
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، نہ تم ہی ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں مگر جب کھلم کھلا کوئی بے حیائی کا کام کریں، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو اللہ کی حدوں سے بڑھا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، آپ کو کیا معلوم کہ شاید اللہ اس کے بعد اور کوئی نئی بات پیدا کر دے۔
5: 30
پھر اسے اس کے نفس (نفس) نے اپنے بھائی کے خون پر راضی کرلیا پھر اسے مار ڈالا پس وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا
50: 16
اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کے نفس (نفس) میں گزرتا ہے، اور ہم اس سے اس کی رگ گلو سے بھی زیادہ قریب ہیں
89: 27-28
(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والے نفس ( النَّفْسُ الْمُطمَئِنَّ)
اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
حصہ چہارم: چند ایات۔
42: 51
اور کسی انسان کا حق نہیں کہ اس سے اللہ کلام کر لے مگر بذریعہ وحی یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے کہ وہ اس کے حکم سے القا کر لے جو چاہے، بے شک وہ بڑاعالیشان حکمت والا ہے۔
41: 12
پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام وحی ( وحی کر دیا )کیا
16: 68
اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کر دیا دیا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان چھتوں میں گھر بنائے جو اس کے لیے بناتے ہیں
50: 3
کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے، یہ دوبارہ زندگی بعید از قیاس ہے۔
50: 4
ہمیں معلوم ہے جو زمین ان میں سے کم کرتی ہے، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔
50: 22
۔بے شک تو اس دن سے غفلت میں رہا پس ہم نے تجھ سے تیرا پردہ دور کر دیا پس تیری نگاہ آج بڑی تیز ہے( اس سے پچھلی آیات کے مطابق یہ روز محشر کے دن کی بات بیان کی جا رھی ھے )۔
96: 15،16
ہرگز ایسا نہیں چاہیے، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔
پیشانی جھوٹی خطا کار۔
21: 78، 79
اور داؤد اور سلیمان کو جب وہ کھیتی کے جھگڑا میں فیصلہ کرنے لگے جب کہ اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت جا پڑیں، اور ہم اس فیصلہ کو دیکھ رہے تھے۔پھر ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، اور ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم دیا تھا، اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑ اور پرندے تابع کیے جو تسبیح کیا کرتے تھے، اور یہ سب کچھ ہم ہی کرنے والے تھے۔
36: 1
کہیں گے ہائے افسوس کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھایا، یہی ہے جو رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا
2: 154
اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔
27: 40
اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے لا دیتا ہوں، پھر جب اسے اپنے روبرو رکھا دیکھا تو کہنے لگا یہ میرے رب کا ایک فضل ہے، تاکہ میری آزمائش کرے کیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شخص شکر کرتا ہے اپنے ہی نفع کے لیے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بھی بے پروا عزت والا ہے۔
13: 31
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
5: 116
اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو، وہ عرض کرے گا تو پاک ہے مجھے لائق نہیں کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں، اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھے ضرور معلوم ہوگا، جو میرے نفس ( لفظ نفس استعمال ھوا ھے)میں ہے تو جانتا ہے اور جو تیرے نفس ( لفظ نفس استعمال ھوا ھے) میں ہے وہ میں نہیں جانتا، بے شک تو ہی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔
12: 83
بلکہ تم نے نفس سے ایک بات بنا لی ہے، اب صبر ہی بہتر ہے، اللہ سے امید ہے کہ شاید اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے، وہی جاننے والا حکمت والا ہے۔
2: 284
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے، اور اگر تم اپنے نفس کی بات ظاہر کرو گے یا چھپاؤ گے اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جس کو چاہے بخشے گا اور جسے چاہے عذاب کرے گا، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
43: 71
ان کے سامنے سونے کے پیالے پیش کیے جائیں گے اور آبخورے بھی، اور وہاں جس چیز کو نفس (نفس) چاہے گا اور جس سے آنکھیں خوش ہوں گی موجود ہوگی، اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔
20: 96
کہا میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی اور میرے نفس (نفس) نے مجھے ایسی ہی بات سوجھائی۔
41: 31
ہم تمہارے دنیا میں بھی دوست تھے اور آخرت میں بھی، اور بہشت میں تمہارے لیے ہر چیز موجود ہے جس کو تمہارا نفس ( نفس)چاہے اور تم جو وہاں مانگو گے ملے گا
64: 16
پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو اور سنو اور حکم مانو اور اپنے بھلے کے لیے خرچ کرو، اور جو شخص اپنے نفس (نفس)کے لالچ( بخل یا grudge) سے محفوظ رکھا گیا سو وہی فلاح بھی پانے والے ہیں
17: 44
ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے، بے شک وہ بردبار بخشنے والا ہے
33: 72
ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا۔
57: 29
البتہ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازوئے (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھیں، اور ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں اور تاکہ اللہ معلوم کرے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی غائبانہ مدد کرتا ہے، بے شک اللہ بڑا زور آور غالب ہے۔
27: 82 – 85
اور جب ان پر وعدہ پورا ہو جائے گا۔تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا۔ کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے اور جس دن میں ہم ہر امت سے ایسے لوگوں کی ایک فوج اکٹھی کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلاتی تھی پھر ان کی گروہ بندی کی جائے گی۔ یہاں تک کہ جب وہ آجائیں گے تو اﷲ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم نے میری آیا ت کو جھٹلایا حالانکہ علمی لحاظ سے تم نے ان کا احاطہ نہیں کیاتھا پھر تم کیا کرتے رہے اور ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر عذاب کی بات پوری ہوجائے گی پھر وہ بول بھی نہ سکیں گے ۔
25: 45
کیا تو نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے، اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا، پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا ہے۔
13: 35
اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے، اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس کے میوے اور سائے ہمیشہ رہیں گے، یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آگ ہے۔
ریفرنس حصہ پنجم
1) 5: 116
اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو، وہ عرض کرے گا تو پاک ہے مجھے لائق نہیں کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں، اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھے ضرور معلوم ہوگا، جو میرے نفس (نفس self) میں ہے تو جانتا ہے اور جو تیرے نفس ( نفس self ) میں ہے وہ میں نہیں جانتا، بے شک تو ہی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔
2) 5: 52
پھر تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں (قلوب) میں بیماری ہے کہ ان (مخالفین) میں دوڑ کر جا ملتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آ جائے، سو قریب ہے کہ اللہ جلدی فتح ظاہر فرما دے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے نفس (نفس) کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے۔
3) 21: 64
پھر وہ اپنے نفس (آنفسھم, self) میں سوچ کر کہنے لگے بے شک تم ہی بے انصاف
4) 7: 2
یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے تاکہ تو اس کے ذریعہ سے ڈرائے اور اس سے تیرے سینہ ( صَدرِكَ ) میں تنگی نہ ہونی چاہیے اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے۔
5) 16: 106
کوئی ایمان لانے کے بعد اللہ سے منکر ہوا مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ( قلب) ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن وہ جو سینہ (صَدرًا ) کھول کر منکر ہوا تو ان پر اللہ کا غضب ہے، اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
6) 40: 56
بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو جھگڑتے ہیں، اور کچھ نہیں بس ان کے سینوں ( صُدُورِ) میں بڑائی ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں، سو اللہ سے پناہ مانگو، کیوں کہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
7) 11: 12
شاید آپ اس میں سے کچھ چھوڑ بیٹھیں گے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور ان کے اس کہنے سے آپ کا سینہ (صَدرُكَ ) تنگ ہوگا کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتر آیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا، آپ تو محض ڈرانے والے ہیں، اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔
8) 57: 6
وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور وہ سینوں ( صدور) کے بھید خوب جانتا ہے۔
9) 10: 57
اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور سینوں ( صدور) کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے، اور ایمان داروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
10) 39: 22
بھلا جس کا سینہ ( صدور ) اللہ نے دین اسلام کے لیے کھول دیا ہے سو وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے، سو جن لوگوں کے دل ( قلب) اللہ کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے ان کے لیے بڑی خرابی ہے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں
11) 39: 7
سو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو، بے شک وہ سینوں ( صدور) کے بھید جاننے والا ہے۔
12) 3: 7
وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں)، سو جن لوگو ں کے دل ( قلوب) ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہیں، اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں۔
13) 59: 14
تم سے سب مل کر بھی نہیں لڑ سکتے مگر محفوظ بستیوں میں یا دیواروں کی آڑ میں، ان کی لڑائی تو آپس میں سخت ہے، آپ ان کو متفق سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لیے کہ وہ لوگ عقل نہیں رکھتے۔
14) 39 : 9
(کیا کافر بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید کر رہا ہو، کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں۔
15) 26: 89
مگر جو اللہ کے پاس پاک دل (قلب سلیم ) لے کر آیا
16) 22: 46
کیا انہوں نے ملک میں سیر نہیں کی پھر ان کے اَیسے دل (قلوب) ہوجاتے جن سے سمجھتے یا ایسے کان ہو جاتے جن سے سنتے، پس تحقیق بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل (قلوب) جو سینوں (صدور) میں ہیں اندھے ہو جاتے ہیں۔
17) 46: 26
اور ہم نے ان لوگوں کو ان باتوں میں قدرت دی تھی کہ تمہیں ان باتوں میں قدرت نہیں دی اور ہم نے انہیں کان اور آنکھیں اور دل (دل، وَّاَفْئِدَةًۖ ) دیے تھے، پھر نہ تو ان کے کان ہی کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں ہی کام آئیں اور نہ ان کے دل ہی (دل ، اَفْئِدَتُهُمْ ) کچھ کام آئے کیونکہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے اور جس عذاب کا وہ ٹھٹھا اڑایا کرتے تھے ان پر آن پڑا۔
18) 39: 23
اللہ ہی نے بہترین کلام نازل کیا ہے یعنی کتاب باہم ملتی جلتی ہے (اس کی آیات) دہرائی جاتی ہیں جس سے خدا ترس لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر ان کی کھالیں نرم ہوجاتی ہیں اور دل (قلب) یاد الٰہی کی طرف راغب ہوتے ہیں، یہی اللہ کی ہدایت ہے اس کے ذریعے سے جسے چاہے راہ پر لے آتا ہے، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے راہ پر لانے والا کوئی نہیں۔
19) 17: 36
اور جس بات کی تجھے خبر نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ، بے شک کان اور آنکھ اور دل ( فواد) ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔
20) 13: 28
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں (قلوب) کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل (قلوب) تسکین پاتے ہیں
21) 8: 2
ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل (قلوب) ڈر جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان پر پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں
22) 2: 74
پھر اس کے بعد تمہارے دل (قلوب) سخت ہو گئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت، اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں، اور بعض ایسے بھی ہیں جو پھٹتے ہیں پھر ان سے پانی نکلتا ہے، اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں
23) 9: 127
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان تمہیں دیکھتا ہے پھر (نظر بچا کر) چل نکلتے ہیں، اللہ نے ان کے دل (قلوب) پھیر دیے ہیں اس لیے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔
24) 39: 45
اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل (قلوب) نفرت کرتے ہیں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو فورًا خوش ہو جاتے ہیں۔
25) 5: 41
اے رسول! ان کا غم نہ کر جو دوڑ کر کفر میں گرتے ہیں وہ لوگ جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں حالانکہ ان کے دل مومن نہیں ہیں، اور وہ جو یہودی ہیں، جھوٹ بولنے کے لیے جاسوسی کرتے ہیں وہ دوسری جماعت کے جاسوس ہیں جو تجھ تک نہیں آئی، بات کو اس کے ٹھکانے سے بدل دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ نہ ملے تو بچتے رہنا، اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے پھر تو اللہ کے ہاں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، یہ وہی لوگ ہیں جن کے دل ( دل ) پاک کرنے کا اللہ نے ارادہ نہیں کیا، ان کے لیے دنیا میں ذلت ہے، اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
26) 79: 8
کئی دل اس دن دھڑک رہے ہوں گے
اللہ نے کسی شخص میں دو دل ( قلبین ) نہیں بنائے، اور نہ اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے، اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے، یہ تمہارے منہ کی بات ہے، اور اللہ سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔
27) 22: 53
تاکہ شیطان کی آمیزش کو ان لوگوں کے لیے آزمائش بنا دے جن کے دلوں ( قلوب) میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں، اور بے شک ظالم بڑی ضد میں پڑے ہوئے ہیں
28) 49: 7
اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے، اگر وہ بہت سی باتوں میں تمہارا کہا مانے تو تم پر مشکل پڑ جائے لیکن اللہ نے تمہارے دلوں ( قلوب) میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے
29) 64: 11
اللہ کے حکم کے بغیر کوئی مصیبت بھی نہیں آتی، اور جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل ( قلب) کو ہدایت دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز جاننے والا ہے
30) 57: 16
کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت اور جو دین حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب (آسمانی) ملی تھی پھر ان پر مدت لمبی ہو گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے، اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
31) 8: 12
جب تیرے رب نے فرشتوں کو حکم بھیجا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کے دل (قلب) ثابت رکھو، میں کافروں کے( دلوں) میں دہشت ڈال دوں گا سو گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور پر مارو
32) 5: 113
انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور ہم جان لیں کہ تو نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ رہیں۔
33) 50: 37
بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ( قلب ) ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو
34) 16: 22
تمہارا معبود اکیلا معبود ہے، پھر جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل (قلوب) نہیں مانتے اور وہ تکبر کرنے والے ہیں۔
35 ) 8: 2
ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل (قلوب) ڈر جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان پر پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
36) 48: 4
وہی تو ہے جس نے ایمانداروں کے دلوں (قلوب) میں اطمینان اتارا تاکہ ان کا ایمان اور زیادہ ہو جائے، اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں، اور اللہ خبردار حکمت والا ہے۔
37 ) 48: 12
بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ رسول اللہ اور مسلمان اپنے گھر والوں کی طرف کبھی بھی واپس نہ لوٹیں گے اور تمہارے دلوں ( قلوب) میں یہ بات اچھی معلوم ہوئی اور تم نے بہت برا گمان کیا، اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔
38) 48: 18
بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں (قلوب) میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی۔
39) 48: 26
جب کہ کافروں نے اپنے دل (قلب) میں سخت جوش پیدا کیا تھا جہالت کا جوش تھا پھر اللہ نے بھی اپنی تسکین اپنے رسول اور ایمان والوں پر نازل کردی اور ان کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اسی کے لائق اور قابل بھی تھے، اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
40) 6: 43
پھر کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو عاجزی کرتے، لیکن ان کے دل (قلب) سخت ہو گئے اور شیطان نے انہیں وہ کام آراستہ کر دکھائے جو وہ کرتے تھے۔
41) 2: 118
اوربے علم کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کیوں کلام نہیں کرتا یا ہمارےپاس اس کی کوئی نشانی کیوں نہیں آتی، ان سے پہلے لوگ بھی ایسی ہی باتیں کہہ چکے ہیں، ان کے دل ( قلب )ایک جیسے ہیں، یقین کرنے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں بیان کر چکے ہیں۔
42) 2: 204
اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں آپ کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے دل( قلب) کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
43) 22: 32
بات یہی ہے اور جو شخص اللہ کی نامزد چیزوں کی تعظیم کرتا ہے سو یہ دل کی پرہیزگاری ہے۔
44) 61: 5
اور جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم مجھے کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، پس جب وہ پھر (ٹیڑھے)گئے تو اللہ نے ان کے دل ( قلب) پھیر دیے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا
45) 63: 11
اللہ کے حکم کے بغیر کوئی مصیبت بھی نہیں آتی، اور جو اللہ پر ایمان (یقین) رکھتا ہے وہ اس کے دل (قلب) کو ہدایت دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز جاننے والا ہے۔
46) 18: 13
ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں، بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زیادہ ہدایت دی۔
47) 18: 14
اور ہم نے ان کے دل (قلوب) مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے، ورنہ ہم نے بڑی ہی بے جا بات کہی
48) 3: 8
اے رب ہمارے! جب تو ہم کو ہدایت کر چکا تو ہمارے دلوں ( قلوب) کا نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطا فرما، بے شک تو بہت زیادہ دینے والا ہے۔
49) 5: 13
پھر ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں (قلب) کو سخت کر دیا، وہ لوگ کلام کو اس کے ٹھکانے سے بدلتے ہیں، اور اس نصیحت سے نفع اٹھانا بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی، اور تو ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتا رہے گا مگر ان میں سے کچھ کے علاوہ، سو انہیں معاف کر اور درگزر کر، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
50) 83: 14
ہرگز نہیں بلکہ ان کے (برے) کاموں سے ان کے دلوں (قلب) پر زنگ لگ گیا ہے۔
51) 2: 283
اور گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو شخص اسے چھپائے گا تو بے شک اس کا دل ( قلب)گناہگار ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ خوب جانتا ہے
52) 3: 8
اے رب ہمارے! جب تو ہم کو ہدایت کر چکا تو ہمارے دلوں ( قلب) کا نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطا فرما، بے شک تو بہت زیادہ دینے والا ہے۔
53) 2: 7
اللہ نے ان کے دلوں (قلب) اورکانوں پرمہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اوران کے لیے بڑا عذا ب ہے
54) 2: 10
ان کے دلوں( قلب) میں بیماری ہے پھر اللہ نے اِن کی بیماری بڑھا دی، اور انُ کے لیے دردناک عذاب ہے اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے
55) 7: 179
اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں، ان کے دل (قلب) ہیں کہ ان سے سمجھتے ( understand) نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں
56) 8: 3
ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل ( قلب) ڈر جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان پر پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں
57) 8: 10
اور یہ تو اللہ نے فقط خوش خبری دی تھی اور تاکہ تمہارے دل ( قلب )اس سے مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے
58) 10: 74
پھر ہم نے نوح کے بعد اور پیغمبر ان کی قوم کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لائے پھر بھی ان سے یہ نہ ہوا کہ اس بات پر ایمان لے آئیں جسے پہلے وہ جھٹلا چکے تھے، اسی طرح ہم حد سے نکل جانے والوں کے دلوں ( قلب) پر مہر لگا دیتے ہیں
59) 10: 88
اور موسٰی نے کہا اے رب ہمارے! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں آرائش اور ہر طرح کا مال دیا ہے، اے رب ہمارے! یہاں تک کہ انہوں نے تیرے راستہ سے گمراہ کر دیا، اے رب ہمارے! ان کے مالوں کو برباد کر دے اور ان کے دلوں ( قلب) کو سخت کر دے پس یہ ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھیں
60) 13: 28
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں (قلب) کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل(قلب) تسکین پاتے ہیں
61) 21: 3
ان کے دل (قلوب) کھیل میں لگے ہوئے ہیں، اور ظالم پوشیدہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری طرح ایک انسان ہی تو ہے، پھر کیا تم دیدہ دانستہ جادو کی باتیں سنتے جاتے ہو۔
62) 8: 11
جس وقت اس نے تم پر اپنی طرف سے تسکین کے لیے اونگھ ڈال دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس سے تمہیں پاک کر دے اور شیطان کی نجاست تم سے دور کر دے اور تمہارے دلوں ( قلوب) کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم جما دے۔
63) 8: 12
جب تیرے رب نے فرشتوں کو حکم بھیجا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت قدم رکھو، میں کافروں کے دلوں ( قلوب) میں دہشت ڈال دوں گا سو گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور پر مارو
64) 8: 24
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کا حکم مانو جس وقت تمہیں اس کام کی طرف بلائے جس میں تمہاری زندگی ہے، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل (قلب) کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور بے شک اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے
65) 39: 18
جو توجہ سے بات کو سنتے ہیں پھر اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں، یہی ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی ہے، اور یہی عقل والے ہیں۔