Afreen Afreen
آفريں۔۔آفریں۔۔
پرانے زمانے کے بزرگ کہہ گئے۔۔
جلنے والی کا منہ گورا۔۔۔
ایک چھوٹا سا ایمان تازہ کر دینے والا واقعہ۔۔۔
ایک گر کی بات۔۔۔
وہ یہ کہ۔۔
جس نے بھی کینیڈا کا قصد کرنا ہو۔۔
تو احتیاطا اپنا سفر آرامدہ بنانے کیلیے ایک عدد بوڑھی اماں کا انتظام کر کے چلے۔۔۔
اور وہ بھی گوری۔۔۔
حیران مت ہوں اور لعنت ملامت تو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔
خصوصا قصہ پڑھنے کے بعد۔۔۔
اگر کرنی ہے تو سچے دل سے ابھی کر لیں۔۔
مگر قصہ نا پڑھیں۔۔۔
ٹھیک ہے جی۔۔
تو ۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
۔۔
اگر آپ یہاں تک آ گیے ہیں تو امید ہے کہ آپ نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے اور اب آپ وعدہ خلافی نہیں کریں گے۔۔
تو جی۔۔
میں کہہ رہا تھا ۔۔
کہ کینیڈا جانا ہو تو ایک بوڑھی گوری اماں کا انتظام ضرور کر لیں۔۔
وہ کیسے؟
تھوڑا پس منظر سمجھاتا ہوں۔۔
ہوا کچھ یوں کہ کینیڈا جانے کیلیے میں نے وہی غریب غربا والی اکانومی کی سیٹ بک کروائی۔۔
دل بہت چاہ رہا تھا کہ فرسٹ کلاس میں جاوں۔۔
مگر قیمت دیکھ کر ہمت جواب دے جاتی تھی۔۔
جیسے سترہ رکت کا سوچ کر لوگوں کی عشاء کی نماز کیلیے۔۔۔
آخر ایک جگاڑ لگا ہی لیا۔۔
جیسے لوگ شارٹ کٹ عشاء پڑھتے ہیں۔۔۔
نہیں نہیں۔۔
آپ غلط سمجھے۔۔۔
کوئی فرسٹ کلاس نہیں۔۔
بلکہ جب میں سیٹ ریزرو کروا رہا تھا۔۔
تو چند ایک ٹکے مزید دینے پر ایکسٹرا لیگ روم والی سیٹ مل رہی تھی۔۔
میں نے آو دیکھا نا تاو۔۔
فٹا فٹ ریزرو کروا لی۔۔
وہ تو اس وقت اور بھی لالچ دے رہے تھے۔۔
مزے مزے کے چاکلیٹ۔۔
گدا۔۔
بسترا۔۔
ہیڈ فون۔۔
تکیہ۔۔
مزید پیسے دے کر لے لو۔۔
جی ہاں یہ گورے بہت لالچی ہو گیے ہیں۔۔
ہر چیز پر پیسے۔۔
مگر اب اتنے بھی فالتو پیسے نہیں تھے کہ ضائع کر دیتا۔۔
چناچہ صرف اور صرف ایکسٹرا لیگ سپیس کی سہولت سے فائدہ اٹھایا۔۔
اب جب بورڈنگ کا اعلان ہوا تو میں آرام سے پیر پسارے بیٹھا رہا کہ لائن میں کون لگے۔۔
جب سب جہاز میں سوار ہو گیے تو آرام سے (اصل میں کاہلی سے) اٹھا اور خراماں خراماں جہاز میں سوار ہو گیا۔۔بھئی مجھے اطمینان تھا کہ میرے پاس زیادہ آرام دہ سیٹ ہے۔۔
جو کہیں دوڑی تھوڑا جا رہی تھی۔۔۔
ٹہلتا ٹہلتا جب سیٹ کی طرف رواں دواں تھا۔۔
تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری سیٹ پر کوئی بیٹھا ہے۔۔
دل کی دھڑکن کچھ تیز ہوئی۔۔
کچھ اور قریب۔۔
دھڑکن کچھ اور تیز۔۔
جیسے جیسے سیٹ کی جانب بڑھتا گیا۔۔
اندیشہ۔۔
حقیقت سے قریب ۔۔
اور قریب۔۔
ہوتا چلا گیا۔۔
اور جب سیٹ پر پہنچا۔۔
تو دل ڈوب سا گیا کہ ایک بوڑھی اماں۔۔
گوروں کی نانی۔۔۔۔۔
اس پر دھڑلے سے قبضہ کیے بیٹھی ہے۔۔
اپنا بورڈنگ پاس نکالا۔۔
اس پر سیٹ نمبر آنکھیں رگڑ رگڑ کر دیکھا۔۔
پھر اوپر سیٹ نمبر دیکھا اور بار بار دیکھا۔۔
اس کے بعد ساری ہمت جمع کی۔۔
گلا کھنگار کر صاف کیا۔۔
لہجہ میں دنیا بھر کی شیرینی بھر کر۔۔
نہایت ادب سے اماں جی سے کہا معاف کیجیے یہ میری سیٹ ہے 36 G۔۔
وہاں سے نہایت سڑا ہوا جواب آیا۔۔
نہیں یہ میری سیٹ ہے۔۔
36 D
جیسے کہ رہی ہو۔۔
دفعہ۔۔۔
پرے مر۔۔
اماں 36 Gکو D 36 بنا کر بیٹھی تھی۔۔
میرا خیال ہے ابھی تازہ تازہ مشرف بہ انگریز ہوئی تھی۔۔
اس لیے انگریجی کے حروف تہجی صحیح نہیں پڑھ سکتی تھی۔۔
خیر ایک آہ بھری اور میں مزید کوئی بحث کیے۔۔
اچھا بچہ بن کر اس کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔
کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔۔
بس سجے کھبے کا چکر تھا۔۔۔
ابھی جہاز اڑے تھوڑی ہی دیر گزری تھی۔۔
ابھی جہاز اڑے تھوڑی ہی دیر گزری تھی۔۔
کہ ائر ہوسٹس سپیشل ابلی ہوئی سبزیاں لے کر آئی اور اماں کے سامنے پٹخ دیا۔۔
مجھے یاد آیا کہ صحت مند رہنے کے چکر میں۔۔۔
یہ کھانا تو میں نے سیٹ بک کرواتے ہوے آرڈر کیا تھا۔۔
لیکن اب اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔۔
دیکھنے میں ہی بیماروں کا کھابا لگ رہا تھا۔۔
لہذا چپکا بیٹھا رہا۔۔
اماں نے ایک یا دو چمچ زہر مار کیے اور پھر پلیٹ۔۔
سڑے ہوے سٹائل سے پرے مار دی۔۔۔
پھر جب میرے لیے مزیدار پاسٹا آیا تو۔۔
دل سے شکر کے بے شمار کلمات بلند ہوے۔۔
آفریں۔آفریں۔۔
خوب ڈٹ کر بغیر ڈکار مارے کھانا معدے میں ٹھونسا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد کچھ سردی سی محسوس ہوئی۔۔
میرا خیال ہے کہ ائر لاین والوں نے جان بوجھ کر اے سی تیز رکھا تھا۔۔
میرے جیسے ماڑے بندوں نے مجورا ان سے کمبل خریدے اور وہ بھی ڈالر دے کے۔۔
نوٹ کریں میرے جیسے۔۔
کیوں کہ جب میں نے پیسے دینے چاہے۔۔
تو فرشتہ صورت۔۔
فرشتہ صفت۔۔۔
فضائی میزبان کی آواز کانوں میں رس گھول گئی۔۔۔
ارے اب آپ سے کیا پیسے لینے۔۔
رہنے دیں۔۔
میں سمجھا تکلف کر رہی ہے۔۔
تو ٹھیک ہے کرنے دو بھائی ۔۔۔
میرا کیا جاتا ہے۔۔۔
دل سے آئی صدا۔۔
آفریں۔۔آفریں۔۔
پھر
ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔
یہ ہیڈفون کتنے کے ہیں؟
آپ کیلیے مفت۔۔
کیا محسور کن جواب۔۔۔
آپ سب میرے ساتھ مل کر کہیں۔۔
آفریں۔۔ آفریں۔۔
کیونکہ باقی تو دس دس ڈالر کے خرید رہے تھے۔۔
اللہ دے بندہ لے۔۔
اور کیا چاہیے۔۔۔
تھڑی دیر گزری تو نہایت مودبانہ انداز میں میری میزبان نے پوچھا۔۔
شراب کا جام پسند کریں گے۔مفت ہے۔۔
یہ پہلی مفت شے تھی جو ٹھکرا دی۔۔
وہ اس جواب سے اتنی خوش ہوئی کہ مجھے چاکلیٹو چاکلیٹ کر دیا۔۔
ایک بار پھر ہو جاے۔۔
آفریں۔۔آفریں۔۔
اب تو یہ سلسلہ ہی شروع ہوگیا۔۔
جوس۔۔
آفریں۔۔
کافی۔۔
آفریں۔۔
ایکسٹرا پیسٹریاں۔۔
آفریں۔۔
چاے۔۔
آفریں۔۔
اللہ اللہ کیا کرم فرمایاں تھیں۔۔۔
باقی تو جیسے حسد سے جل ککڑے ہو رہے تھے۔۔
ویسے سمجھ تو آگئی تھی۔۔
کہ اصل میں تو اماں نے یہ ساری لوازمات خریدے تھے۔۔
مگر یہ سب اس ادلا بدلی کا چکر تھا۔۔۔
سفر کمبل میں بہت آرام سے گزرا۔۔
ضمیر بہت آسودگی سے سویا رہا۔۔۔
آماں کا مجھے پتہ نہیں۔۔۔
ویسے اپنی پسند کی سیٹ پر خوش ہی ہو گی!!!!
جاتے جاتے سوچا۔۔
اس کا شکریہ ہی ادا کر دوں۔۔
مگر پھر تھو مارا کر دیا۔۔
کیونکہ اسے تو انگریجی آتی ہی نہیں تھی۔۔
جو G کو D کر دے۔۔
اس کی انگریجی کا کیا بھروسہ
بس ایک بار اور ہو جاے۔۔۔
(ذرا ترنم سے)
بھائی نصرت فتح اور ہمنوا۔۔
آفریں۔۔آفریں۔۔
حسن اتفاق کی تعریف ممکن نہیں۔۔۔
تو بھی سوچے اگر تو کہے ہم نشیں۔۔
آفریں۔۔آفریں۔۔
آفریں۔۔آفریں۔۔