Just Chill Chaudhry
داستان چوھدری ۔۔۔۔ دوسرا حصہ
جی خبرنامہ ختم ہوا۔۔۔
اب کہانی کا باقی حصہ۔۔۔
تو جیسا کہ خبرنامہ کہ بعد ہوتا تھا۔۔۔۔
کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔۔
یعنی۔
میں نے چودھری صاب سے کہا کہ کام تو بڑا سسپنس سے بھرپور ہے۔۔۔
لیکن کیا واقعی آپ کے رشتہ دار یہاں شفٹ ہوے ہیں۔۔۔؟
تو انھوں نے گھنٹی بجا کے سلام دعا کی اور میرے خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔۔۔
ورنہ میں سوچ رہا تھا کہ اپنی ماں کو کیا جواب دوں گا۔۔
جس نے کہا تھا کہ غلط لوگوں کے ساتھ مت اٹھنا بیٹھنا۔۔۔
اور میں اپنے آپ کو تسلی دے رہا تھا کہ میں تو صرف غلط لوگوں کے ساتھ موٹرسائیکل چلا رہا ہوں۔۔۔۔
خیر ۔۔۔۔
ایک بات اور بھی سچ ہے۔۔۔۔
وہ یہ کہ چودھری صاب کی سردی مشہور ہے۔۔۔
ادھر سورج نے رخ روشن ۔۔۔بادلوں کے پردے میں چھپایا۔۔۔
ادھر چودھری صاب کو کانبا چڑھ گیا۔۔۔
چودھری صاب کے بارے عام طور پر یہ بھی مشہور ہے کہ موٹر سائیکل کو کسی نہ کسی بس کے عین پیچھے چلاتے تھے۔۔
میں بہت حیران کے زندگی ایسی بھی کیا داو پر لگانی۔۔
ایک دن اس راز سے پردہ اٹھ ہی گیا۔۔۔( چودھری صاب گواہی دیں گے)۔۔۔
کہنے لگے یار اس ظالم سردی میں اس بس کا گرم گرم دھواں بہت سکون دیتا ہے۔۔
میں سمجھتا تھا شاید پیٹرول کا نشہ شروع کر دیا ہے۔۔۔
ارے ہاں اس چودھری صاب کے ڈھاٹے سے ایک چھوٹا سا قصہ یاد آ گیا۔۔۔
ایک دن صبح کالج کیلیے بس صٹاپ پر کھڑا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ آج شاید بس رائٹ ٹائم آی اور مجھے لیفٹ کر گئی۔۔۔
لہذا گھر پہنچا۔۔۔
ٹامی (میری کھوتی ۔۔۔۔ ھنڈا سیونٹی) کو کک ماری ۔۔۔
اور کالج کی طرف رواں دواں ہوگیا۔۔۔
ابھی جھال کا پل اترا ہی تھا کہ۔۔۔
اپنے یار چودھری صاب کو موٹر سائیکل پر چادر کی بکل مارے اور منہ ہر ڈھاٹا باندھے جاتے دیکھا۔۔۔
دل خوشی سے کھل اتھا کہ لو جی باقی کا سفر باتیں کرتے آرام سے گزر جاے گا۔۔۔
ہاں سفر لمبا ضرور لگے گا کہ وہ مٹر سائیکل پر پیدل چلنے والے کے ساتھ ریس لگاتے تھے اور میں۔۔
ایسے اڑاتا تھا جیسے کتے پیچھے لگے ہوں۔۔۔
تو جی بیس منٹ میں باتوں ہی باتوں میں سفر کٹ گیا اور ہم کالج پہنچ گیے۔۔۔
چودھری صاب تو اچھے بچوں کی طرح موٹر سائیکل سٹینڈ مڑ گیے۔۔۔
اور میں اپنے ٹامی کی ضد پر مجبور سیدھا چلا۔۔۔
مرضی کا مالک تھا ۔۔
جہاں دل کرتا تھا محواستراحت ہو جاتا تھا۔۔۔
خیر ابھی دس قدم ہی آگے گیا تو دیکھا کہ ہماری بس بھی ابھی ابھی کالج پہنچی تھی اور سب اتر کر باہر آ رہے تھے۔۔۔
اس وقت مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا۔۔۔
میں سن سا ہو گیا ۔۔۔
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔۔۔
یا اللہ یا میرے مالک یہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔
میرے سامنے۔۔
جی ہاں ۔۔۔
ایک اور ۔۔۔
چودھری صاب بس سے اتر کر خراماں خراماں چلے آ رہے تھے۔۔۔
میں نے ایک جھٹکے سے مڑ کر موٹر سائیکل سٹینڈ کو دیکھا۔۔۔۔
جہاں پہلے چودھری صاب اپنا ڈھاٹا اور چادر سلیقے سے تہہ کر کے سئیڈ بیگ میں ڈال رہے تھے۔۔۔
میں تو گم صم کہ یہ آخر کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔
یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔
میں تو نشہ بھی نہیں کرتا۔۔
پھر یہ کیا۔۔۔۔؟