خادم کے صدقے۔۔۔
اب ھسٹالوجی کی تو پورے دو سال میں میں نے صرف پہلی کلاس ہی اٹینڈ کی تھی۔۔
جس میں ہمارے استاد محترم نے گائنی والا لطیفہ سنا کر اپنے مقاصد واضح کر دیے تھے۔۔
اب یہ تو سب کو پتہ ہے کہ ھسٹالوجی پراف میں دس عدد سلائیڈز دیکھ کر شناخت کرنا ھوتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
میری جانے بلا۔۔۔
الحمدللہ الحمدللہ۔۔۔
یماری پیپلز کالونی والی بس میں ایک اناٹومی کے لیب آٹینڈینٹ بھی جاتے تھے۔۔۔
وہ نہیایت ہی شفیق انسان تھے۔۔۔
ان سے مسئلہ عرض کیا۔۔
تو انھوں نے سلائیڈز سیٹ کرتے کرتے دیکھ لیں اور باہر آکر مجھے بتا دیں۔۔۔
میں نے بھی ترتیب سے یاد کر لیں اور جواب لکھ آیا۔۔۔۔
میرا لڑکوں میں نمبر کوئی ٢٠ یا ٢١ تھا۔۔۔
اب جب میں نے کاپی ایکسٹرنل کو پکڑائی تو اس نے با آواز بلند کہا۔۔۔۔۔
یہ پہلا لڑکا ہے جس کی ساری سلائیڈز ٹھیک ہیں۔۔
بہت لائق ہے۔۔۔
یہ کہنا غضب ڈھا گیا۔۔۔
باہر تو ایک تھرتلی مچ گئی۔۔۔۔
سب میرے دوالے کے ہمیں بھی بتا کہ کس ترتیب میں کیا لگا ہے۔۔
میں نے بتا دیا۔۔
اور ایک بھائی نے تو حد ہی کر دی۔۔
وہ چاک لے کر گیے اور مائیکروسکوپس کے نیچے جواب لکھتے گیے۔۔۔
ہمارے ایکسٹرنل بہت امپریس، کہنے لگے
لائق لڑکے تو اب آنا شروع ہوے ہیں۔۔۔
اب انٹرنل کو تو پتا تھا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔۔۔
دال ہی ساری کالی نظر آنے لگی۔۔
تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ لڑکے مائیکروسکوپ کے اندر دیکھنے کی بجاے اس کو ٹلٹ کر کر کے دیکھ رھے ھیں۔۔
انھوں نے چائے کے وقفہ کا اعلان کیا۔۔
اور ساری سلائیڈز بدل دیں پر جواب لکھے رہنے دیے۔۔
اب یہ تو پھر حسن اتفاق ہی کہلائے گا کہ چائے کے وقفے کے بعد سب لڑکےتاریخ کے اوراق میں نالائق کہلائے۔۔