کائنات اور ایمان
اللہ مجھ سے کیا چاہتا ھے؟
ذاتی تجربہ یہ ھے کہ جب میں نے اس زاویے سے اپنی سی تحقیق کی کہ حقیقت میں اللہ مجھ سے کیا چاھتا ھے, بجائے یہ سوچنے کہ میرے خیال میں اللہ کو مجھ سے کیا چاھنا چاھئے, تو بہت سی چیزیں کی بہت بہتر سمجھ لگنے لگی .
قران پاک بھی اسی تحقیق والے زاویے سے پڑھنے سے اسکی سمجھ انے لگی.
ھم روبوٹ نہیں ھیں کہ جو بچپن میں یا بعد میں کسی نے دماغ میں ڈال دیا تو اسکو ھمیشہ فالو کرتے رھیں گے۔
روبوٹ اور انسان میں فرق ھے ….
انسان روبوٹ کے مقابلے میں اپنی سوچ میں تبدیلی کا اختیار رکھتا ھے. اسلئے اگر کسی چیز کی اطمینان کن وضاحت نہ میسر ھو تو انسانی دل و دماغ اس کو فالو کرنے پر غیر مطمئن رھتے ھیں۔
آج کا مسلمان
آج کل کے جدید سائنسی دور میں نئی جنریشن ایمان اور دور جدید کے سائنسی لاجکس کے درمیان بٹ کر رھ گئی ھے۔ بیشتر علماء دور جدید کے علوم سے ناواقف ھیں۔
نئی جنریشن جدید علوم تو رکھتی ھے مگر اکثریت خود سے قران کے پیغام سے ناواقف ھے۔ یہ اکثر علما کی سینکڑوں سالوں پہلے کی دینی وضاحتوں سے متاثر نہیں ھوتے جو کہ آج کے دور کے سائنسی اور curious ذھین کیلئے اطمینان اور یقین کیلئے ناکافی ھیں۔ اور اکثر خود سے قرآن سے دور ھیں کیونکہ علما نے دین کو مسلک بنا دیا اور عام مسلمانوں کو کتاب الہی کو خود سے سمجھنے سے دور کر دیا۔
کتابٍ الٰہی ۔ ضابطہ حیات
اسلئے آج کے دور میں کتاب اللہ کا بہترین مہفوم موجودہ دور کے علوم کی روشنی میں مرتب کرنے کی ضرورت ھے۔ تاکہ نئی جنریشن کو دور جدید سے ھم اھنگ لاجکس سے ایمان و دین کے بارے میں بتایا جائے۔
اسکے علاوہ نئی جنریشن کو کتاب الہی پکڑا کر اسکی عربی یا کم از کم ترجمہ سمجھ کر بار بار ساری عمر پڑھنے کی ترغیب دینا ضروری ھے۔ متواتر اور ساری عمر کیلئے، اسلئے کہ خواھشات نفس اور گمراھی کی قوتیں بھی ساری عمر انسانی ذہنوں پر متواتر حملہ آور ھوتی رھتی ھیں۔
کائنات کا وجود
کسی کو نہیں پتہ کہ اتنی بڑی کائنات کیوں بنائی گئی.
قرآنی علم کی روشنی میں میں یہ اندازہ کرتا ھوں کہ اللہ ایک لا محدود علم اور طاقت کا حامل ھے یعنی hyper power
جب کائنات و مخلوقات کی تخلیق اور آزمائش کا اللہ نے فیصلہ کیا تو اس نے خود کو سب سے چھپا لیا۔ میرے خیال میں کائنات اور مخلوقات کی آزمائش کا یہی بہترین طریقہ تھا۔
غور کریں کہ اگر لا محدود طاقت کا مالک اللہ جو کائنات کا حقیقی بادشاہ ھے، جو مخلوقات کے خیالات اور انکے ظاھر اور باطن کو ھر وقت دیکھ رھا ھے، اور جو جزا و سزا کا مکمل اختیار رکھتا ھے، سب کی نظروں کے سامنے موجود ھو، اور پھر کوئی اسکی بندگی یا نافرمانی کرے تو اللہ کو اپنی بادشاہت کا بھرم رکھنے کیلئے اسکی جزا یا سزا دینے کا فیصلہ اسی وقت کرنا پڑ سکتا ھے۔ وگرنہ مخلوقات اسکی بادشاھی اور لامحدود طاقت کے دعوی کے اگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیں گی۔
اگر اللہ فورا جزاوسزا کا فیصلہ فرما دے تو ایسی صورت میں یہ کائنات ازمائش تو نہ رھی۔ اسی وجہ سے خدا نے خود کو مخفی رکھا۔ اسی لئے قرآن میں بیان کیا گیا ھے کہ اللہ دنیا میں جلدی نہیں پکڑ کرتا۔ اسلئے کہا گیا کہ اگر زمین پر لوگوں کیلئے فرشتہ اتار دیا جائے یا اللہ خود سامنے آ جائے تو جزا و سزا کا فیصلہ صادر ھو جائے گا کیونکہ اس طرح کے کیس میں اصل حقیقت جس کی ازمائش ھو رھی ھے یعنی اللہ پر ایمان کی حقیقت آشکار ھو جائے گی اور اللہ اپنی بادشاہت قائم کرنے کا فیصلہ صادر کر دے گا۔
آزمائشِ دنیا
اسلئے عالم اسباب بنایا گیا جس میں ھر چیز اصولوں اور اسباب سے منسلک کر دی گئی۔ آزمائش کی دنیا کے اصول تمام لوگوں ،چاھیے وہ مسلمان ھوں یا غیر مسلم، کیلئے یکساں ھیں۔
مگر قرآن کے مطابق ایمان والوں کو سکون دل اپنے ایمان کی بدولت دنیا میں دینے کا وعدہ ھے اور ایمان والوں کے جان و مال اللہ نے جنت کے وعدہ کے بدلے اس دنیا میں خرید لیے ھیں. باقی دنیاوی مصائب کیلئے صبر، نماز، دعا اور اللہ پر بھروسہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
سورت یوسف میں اللہ نے کہا کہ وہ اپنی مشیعت یا مرضی غیر محسوس طریقے سے نافذ کرتا ھے۔ میرے خیال میں اسلئے کہ مخلوقات کی آزمائش کا پراسس متاثر نہ ھو۔
اسلئے ایک اور جگہ فرمایا گیا کہ جو قتل ھو تو دلیل کے ساتھ اور جو زندہ رھے تو دلیل سے۔ میرے خیال میں اسلئے کہ آزمائش کا عمل قائم رھے ۔یعنی ایمان والے کسی کے مرنے یا جینے کیلئے اپنی دلیل اور بے ایمان اپنی دلیل ڈھونڈھ لیں اور اپنے منتخب کیے ھوئے راستوں پر قائم رہ سکیں۔ یعنی دونوں کیلئے راستہ کی تبدیلی مشکل بنا دی گئی جب تک شعوری طور پر اسکو تبدیل کرنے کی جدوجہد نہ کریں۔ اسلئے یہ بھی فرما دیا گیا کہ ھدایت (ایمان) اسکو ملتی ھے جو اسے پانا چاھتا ھے۔ یعنی شعوری طور پر کائنات کے خالق تک پہنچنے کی جدوجہد کرے تو راستہ د
کھا دیا جائے گا۔
اسباب اور کائنات
اسباب اور کائنات کے سائنسی اور روحانی اصول قرآن پاک میں مختلف مثالوں اور سادہ الفاظ میں بیان کئے ھیں
قران میں بگ بینگ سے زمین و اسمان کی تخلیق کی اسٹرانمی کا نالج بیان ھوا ھے…. اسطرح کی اور زمینیں (زمین سے مراد زندگی رکھنے والا planets ھے) بھی موجود ھونے کا بیان ھے…..
ٹائم کے relative ھونے کا بیان بھی ھے جو کہ ائن سٹائن کی تھیوری میں بہت بعد میں بیان ھوا…..
اسٹرانمی پڑھیں اس کائنات میں موجود سورج یا ستارے دنیا کے تمام ساحل سمندروں پر پائے جانے والے ریت کے ذرات سے بھی زیادہ ھیں .
انسان کی حثیت تو بہت معمولی ھے…..
جب کائنات بنی تھی تو اسمانوں زمین سے قران کے مطابق کہا گیا تھا کہ
Come together willingly or unwillingly. And they came together willingly
یہ تھا حق … یعنی حکم اللہ کہ تمام کائنات نے سر تسلیم خم کر دیا . اس کائنات کو اسباب اور اصولوں laws of nature کا پابند کر دیا گیا. اسطرح کائنات حق یعنی حکم الہی کے مطابق قائم ھوئی.
اللہ عرش عظیم پر ھر نگاہ سے پوشیدہ ھو گیا. اور مقررہ مدت یعنی قیامت تک کیلئے ازمائش شروع کر دی گئی۔
مخلوق کا اختیار
جن , انسان اور دوسری مخلوقات علم و اختیار دے کر پیدا کی گئیں ….
اور ھمیں یہی بتایا گیا کہ یہ ازمائش ھے …. ماننا ھے تو مانو ورنہ نہ مانو; فاہدہ یا نقصان کے ذمہ دار مدت ازمائش کے بعد تم خود ھو گے….
دنیا تو اسباب اور اصولوں پر ھی چلے گی. ھر کسی کو اچھے برے حالات دے کر ازمایا جائے گا چاھیے وہ مسلم ھو یا غیر مسلم… پھر سب کیلئے موت….
ھر چیز جو اسطرح وقوع پذیر ھو رھی ھے صاف صاف قران پاک میں بیان کر دی گئی ھے…. اب اتنی ھی وضاحت سے صاف طور پر نماز, عبادات اور حقوق العباد بیان کر دے گئے ھیں.
اللہ پر ایمان
اللہ کے غیبی وجود پر ایمان کائنات میں نشانیاں یعنی کائنات کی perfection دیکھ کر بھی آتاھے خصوصاً جو لوگ علم رکھتے ھیں اور پھر عقل استعمال کرتے ھیں وہ ایمان لاتے اور اس میں ترقی کی کو شیش کرتے رھتے ھیں۔ یعنی ذات الٰہی اور اسکی کائنات کو سمجھنے کی ّکوشیش کرتے رھتے ھیں۔
انکے سینے اللہ ھدایت کیلئے کھول دیتا ھے اور دلوں کو سکون دیتا ھے۔ تا کہ اللہ ان لوگ کو سیدھے راستے پر جما دے جو کہ انھوں نے اپنے لیے شعوری طور پر منتخب کیا۔
رھی عبادات ۔۔۔ تو ھر چیز میں راہ نکالنے کیلئے پہلے اپنی ذات کیلئے رسک کیلکولیٹ کرنا چاھئیے.
اگر میں ایمان رکھنے اور اسکی حقیقت جاننے کے باوجود فرض نماز پڑھنا چھوڑ دوں تو اس میں پکڑ کا رسک بہت زیادہ ھے بلکہ یہ تو اللہ کو اپنے لیے کھلی حجت دینے والی بات ھے.
اگر اصل نماز واقعی ھی انسانوں کی خدمت ھے جیسا کچھ سمجھتے ھیں تو اٹھک بیٹھک والی نفل نماز پڑھنے کا فائدہ ھی ھو گا نقصان نہیں … اور خدمت خلق کا الگ سے حکم فالو کرنے کیلئے تو موجود ھی ھے .
سر تسلیم خم کر دو اور دوسروں کے اعمال سے بری الزمہ ھو جاو تو زندگی سے بے چینی کا تلاطم ختم ھو جاتا ھے.