نظر بد کیا ھے؟
کیا نظر بد کی کوئی واقعی حقیقت ھے؟
سورہ الفلق میں اسکا ذکر ھے۔ وسوسے، گرہوں پر پڑھ کر پھونکنے والوں کا شر، حسد کرنے والے کا شر وغیرہ۔
سمجھ یہ آتا ھے کہ انسان کی شخصیت احساس اور جذبات اور سوچ سے بنتی ھے۔ اور اچھی سوچ کی اچھائی اور بری سوچ کی برائی کا شر اپنے گردونواح اور اردگرد کے ماحول کو متاثر کرتا ھے۔۔۔
کامن مشاھدہ ھے کہ خوش لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر انسان خوشی اور ٹینشن زدہ لوگوں کے ساتھ ٹینشن محسوس کرتا ھے۔۔۔
جب یہ ٹینشن انسان کے ذھن پر سوار ھو کر اس سے کوئی غلطی صادر کرواتی ھے اور نقصان ھوتا ھے تو یہ ایک طرح کی نظر بد ھے۔۔۔
احساسات و خیالات ھمارے زندگیوں پر اچھا اور برا اثر ڈالتے ھیں۔۔۔ ماڈرن سائنس اس پر بڑی تحقیق ھو رھی ھے۔۔۔۔
کبھی “de ja wu” اور “law of attraction” کو گوگل سرچ کر کے دیکھے ۔۔۔۔
“law of attraction” کا الٹ بد نظری ھے۔۔۔
یہ سورہ الفلق میں ھے تو میرے ایمان کا حصہ ھے۔
نظر بد کے بارے میں معاشرے میں توھمات ھیں۔۔۔۔۔۔
صحیح کہا۔۔۔۔
علم سے دوری انسان کو غیر اللہ کے سہارے ڈھونڈنے کی طرف راغب کر دیتی ھے۔
شیطان کے انسان کو سجدہ نہ کرنے والے قرآنی قصہ میں بہت نشانی ھے۔
اس پر اپنا مشاھدہ شیئر کروں گا۔۔۔
جب اللہ نے انسان کو بنایا تو اس سے پہلے سب کو بتا دیا کہ وہ زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ھے۔ فرشتے کہنے لگے کہ یہ بہت فساد پھیلائے گا ؛
میرے خیال میں انسان کی تخلیق کے عمل سے پہلے یا دوران اللہ نے بتا دیا تھا کہ انسان کی تخلیقی ساخت کیا ھو گئی۔اور یہ کہ اسکو choose کرنے کا اختیار ھو گا اور یہ کہ اسکو خلیفہ بنانے کا مطلب ھے کہ اللہ دنیا کا نظام انسان کے اختیار میں دے گا اور ظاھری خدائی مداخلت نہ ھو گئی۔
اسلئے فرشتے ڈر گئے کہ یہ تو فساد پھیلا دے گا۔۔۔
اللہ نے کہا کہ جو میں جانتا ھوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر آدم کو چیزوں کے نام سیکھائے اور ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا فرشتے چیزوں کے نام نہ بتا سکے ؛
میرے خیال میں اس سب سے مراد ھے کہ فرشتوں اور شیطان یعنی جنوں پر انسان کو واضح ذھنی اور علمی برتری عطا کی گئی۔ ایک دوسری قرآنی آیت میں یہ ھے کہ انسان کیلئے دنیا اور کائنات مسخر کر دی گئی ھے۔ دونوں ایات کو اکٹھا رکھ کر سوچیں تو سمجھ آتی ھے کہ چیزوں کے نام سیکھانے سے مراد ھے کہ انسانی دماغ میں کائنات کے علوم الہام کر دیئے گیے اور انکو انسان اپنی کوشیش سے refine کرکے مسخر کر سکتا ھے۔ جبکہ فرشتوں اور جنوں کو خاص کام کی صلاحیت یا صرف زوربازو دیا گیا ھے مگر اس سے آگے کا علم انکے لیے شاید محدود ھے۔
پھر فرشتوں اور شیطان کو انسان کو سجدہ کرنے کو کہا اور شیطان انکار کر گیا ؛
مطلب یہ کہ شیطان کے گھمنڈ کی اللہ کو اپنے علم سے خبر تھی اور اسی پر اسکو آزمایا گیا۔ اسلئے شیطان پر جب رب غضب ناک ھوا تو وہ کہنے لگا کہ اے میرے رب تو نے مجھے گمراہ کر دیا۔ مطلب یہ کہ وہ جاننے کے باوجود کہ یہ ایک ازمائش ھے بھی اپنے گھمنڈ کے تعصب پر قابو نہ پا سکا اور نہ صرف انکار کر گیا بلکہ معافی کا مطلب گار بھی نہ ھوا۔
یعنی خدا اسی چیز پر آزماتا ھے جو پیاری اور اھم ھے اور جو کہ کمزوری یا خامی ھے۔ جیسا قرآن میں ایک اور جگہ پر ھے کہ 4 حرام مہینوں میں شکار تمھارے نیزوں پر ھو گا تاکہ تم کو آزمایا جائے کہ بن دیکھے خدا پر کون یقین کرتا ھے۔
پھر شیطان انسان کے بارے میں حسد وانتقام کے تعصب میں گرفتار ھو گیا اور خدا سے قیامت تک کی مہلت مانگ بیٹھتا تاکہ انسان کو گمراہ کر کے انتقام لے سکے؛
اس سے یہ پتہ چلتا ھے کہ شیطان کے اعمال ضائع ھو گئے، یعنی تعصب کرنے والے اگر اپنے تعصب کی اصلاح نہ کریں تو انکی نیکیاں اخرت کے لحاظ سے ضائع ھو جاتی ھیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ھے کہ اللہ نے اسکو مہلت دے کر اسکی نیکیوں کا دنیا میں ھی بدلہ دے دیا۔
پھر اللہ نے آدم اور حوا کو پھل کھانے سے منع کیا اور شیطان نے انکو بہکا دیا۔ لیکن خدا نے سب کچھ جانتے ھوئے بھی انکو بہکنے دیا ؛ بالکل اسطرح دنیا میں خدا نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے حرام حلال کی نصیحت کر دی۔ مگر شیطان کے بہکانے اور انسان کے بہکنے کے عمل کے دوران کوئی مداخلت نہ کی جائے گئی ۔ بلکہ سارے عمل کو پورا ھونے دیا جائے گا۔
پھر آدم کو معافی کے اللہ نے خود ھی کلمات سیکھانے اور معافی مانگنے پر معاف بھی کر دیا۔مگر پھر ازمائش کیلئے زمین پر بھی بھیج دیا؛
یعنی اللہ نے اپنی سنت قائم کردی اور انسانوں کیلئے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے حرام و حلال اسطرح واضح کیے اور نیکی و معافی کے کلمات اتارے تاکہ جو معافی مانگے تو اسکو معاف کیا جا سکے، اور پھر مزید ازمائش بھی کی جا سکے۔
اور جو متواتر معافی نہ مانگے اسکو شیطان کی طرح دنیا میں صلا دے کر اخرت میں جہنم ارسال کر دیا جائے۔
اس قصے میں ذرا غور کریں تو دنیا میں ازمائش کے بنیادی اصول واضح کر دیئے گئے ھیں ۔
قرآن میں 18:39 میں ماشااللہ کے بارے میں تاکید ھے۔ یہ ھم اللہ کے شکر کے طور پر کہتے ھیں تاکہ نعمت الہی ھم سے اللہ ناشکری کی وجہ سے واپس نہ لے لے۔
بد نظری کا تعلق صرف کسی چیز کو دیکھ لینے سے نہیں ۔ یہ تو صرف اصطلاح ھے ۔۔ اسکا تعلق نیگٹو یعنی حسد یا رشک کے خیالات سے ھے جیسا کہ سورہ الفلق میں انتہائی واضح طور پر بیان کیا گیا ھے۔ یہ ایت ھے اسکی تشریح نہیں۔
محاوراتی طور پر بد نظری کی اصطلاح استعمال کی جاتی ھے۔ اگرچہ شر یا حسد کے شر کی اصطلاح استعمال کرنی چاھیے
میرے خیال میں شر کے احساسات و خیالات سے دوسرے کے خیالات کو ھی نقصان پہنچتا ھے ۔ جس سے ذھنی کوفت یا ٹینشن میں اضافہ ھو سکتا ھے ۔ ذھنی ڈینشن کے تحت کبھی کبھی کام خراب بھی ھو سکتے ھیں: مریض بھی مر سکتے ھیں اور کار ایکسیڈنٹ بھی ھو سکتا ھے۔
اس شر کا اثر ذھنی ھوتا ھے یعنی psychological
جسمانی بیماری ھونے کا کوئی بیان نہیں۔
فزیکل کنڈیشن اور symptoms کا اس سے تعلق نہیں۔ باقی لوگ تو عوام کو لوٹتے ھیں اور عوام جاھل ھے اور چاھے اپنے پاس جیب میں ایک روپیہ نہ ھو مگر نظر بد سب کو لگی ھوتی ھے۔
قرآن نے تو اسکے بچاو کیلئے اللہ سے صرف پناہ مانگنے کا کہا ھے۔ تعویز وغیرہ تو کم عقلی اور جاھل پن ھے۔
باقی میرے خیال میں شیطان کے پیروکاروں اور بے ایمان پر شر کے خیالات کا نیگٹو اثر نہیں ھوتا ۔
۔ قرآن میں ایک اور جگہ پر ھے کہ جو ایمان نہیں لاتے انکو انکے حصہ کا صلہ دنیا میں دے دیا جائے گا۔۔۔ کیونکہ انکی یہی خواہش ھے اور وہ اخرت میں حصہ دار نہ ھو گئے۔
اسلئے انکو نظر بد یعنی شر کے خیالات کی نیگٹوٹی سے نقصان نہیں ھوتا تاکہ وہ دنیا کے مزے خوب لوٹ لیں۔
یہ میرے خیال میں زیادہ تر ایک mild درجہ کی ذھنی کوفت یا restlessness کی حالت ایمان والوں میں پیدا کرتی ھے۔۔
باقی لوگ اپنی کم علمی اور جاھلت کی وجہ سے جادو، تعویز ، وغیرہ کے چکر میں پڑ جاتے ھیں۔