منو بھائی موٹر چلے پم پم پم
ہمارے ایک کلاس فیلو تھے شر جیل
بہت ہی پڑھاکو قسم کے۔۔۔
خیر دوسری سرگرمیوں میں بھی پیچھے نہیں تھے۔۔۔
ویسے پڑھاکو تو ایک معصوم سا لفظ ہے۔۔
وہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہی تھے۔۔۔
بس ٹاپ اس لئے نہیں کرتے تھے کہ اس میں ان کیلئے کوئی کشش نہیں تھی۔۔۔
اس کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔۔۔۔
وہ ایسے کہ فائنل پراف میں کامی کا کمرہ سب کا مشترکہ ریسٹ روم تھا۔۔۔
جس کو بھی پڑھنے سے وحشت، اکتاہٹ، گھبراہٹ،بیزاری، آوازاری وغیرہ وغیرہ ہوتی تھی۔۔۔
وہ چائے پینے۔۔
سگریٹ سے کمرے کی آب وہوا صاف کرنے۔۔۔۔۔
حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرنے۔۔۔
یا ویسے ہی چکر لگانے۔۔
کامی کے کمرے کا رخ کرتا تھا۔۔۔
جیسے۔۔۔۔۔
یار کامی تو نے میرا تولیہ دیکھا ہے۔۔۔
کامی ٹائم کیا ہوا ہے۔۔۔
کامی۔۔۔ بٹ تیرے کمرے میں ہے؟
کامی آج میس کا مینو کیا ہے؟؟؟
یہ آغاز ہوتا تھا۔۔۔
جواب کی انھیں ضرورت ہوتی تھی نا پرواہ۔۔۔
بس کرسی گھسیٹی اور کمرے میں موجود کسی بھی شخص سے گفتگو شروع۔۔۔
اس سے ایک بات یاد آئی
کامی کے کمرے کی سب کو اتنی عادت ہو گئی تھی۔۔
کوئی اور کمرہ پسند ہی نہیں آتا تھا۔۔۔
ایک دفعہ کامی تالہ لگا کر گھر گیا۔۔۔
واپس آیا تو تالہ ٹوٹا ہوا۔۔۔
دروازے چوپٹ کھلا۔۔۔۔
اور اس پر پرچا لگا ہوا۔۔۔
یار وہ پینسل لینی تھی۔۔۔
اس لئے۔۔۔۔
فقط انیل
پراف کے دنوں میں کامی منت ترلا کر کے مجھے بھی بلا لیتا تھا۔۔۔
کہ اس ساری سرکس سے میں محروم نا رہ جاؤں۔۔۔
میں ایک کونے میں پڑا رہتا تھا۔۔۔
کمرے میں میرا کام DJ کا ہوتا تھا۔۔۔
جسے یاں تو پرانے گانے پسند تھے یا ری مکس۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ سونا بھی میرا محبوب مشغلہ تھا۔۔۔
ایک بات ہے۔۔
سب لوگ اپنی بریک کے وقت پر سختی سے کار بند رہتے تھے۔۔۔
اپنی اپنی بریک اپنے اپنے وقت پر ختم کی اور پڑھنے کے لئے یہ جا وہ جا۔۔۔
بیچ میں کامی کی حالت دیدنی کہ وہ کس وقت پڑھے۔۔۔
ایسی ہی ایک رات تھی۔۔۔
میڈیسن کا اگلے دن پیپر تھا۔۔۔
سخت ٹینشن سب کو۔۔۔۔۔
قسمت سے سب لوگ اکٹھی ہی بریک لینے کے چکر میں کمرے میں جمع تھے۔۔۔
جپھا (غضنفر)۔۔
کھنہ (عرفان کہ اس کی شکل ونود کھنہ سے ملتی تھی)۔۔۔۔۔
وے جوادیا۔۔۔
ٹوٹو۔۔۔
بٹ۔۔۔
انیل۔۔
جے جے (جہانگیر)۔۔۔۔۔
یوگی(ماجد کہ اسے یوگا کا بہت شوق تھا)….
شرجیل۔۔۔
کامی۔۔
اور ما بدولت۔۔۔
کچھ دیر کیلیے تو فکر نا فاقہ
عیش کر کاکا۔۔۔
والی صورتحال نظر آئی ۔۔۔
سگریٹ کے شوقین۔۔۔
دم مارو دم۔۔۔
چائے کے رسیا۔۔۔
چائے کی چسکیاں لیتے۔۔۔
گپیں مارنے والے اپنے شغل میں مصروف۔۔۔
کہ ایک دھماکے سے دروازے کھلا اور۔۔۔
بابا (خرم لون) اندر داخل ہوا۔۔۔
اپنی مخصوص لچھے دار چال چلتے ہوئے۔۔۔۔
ایک حقارت سے بھر پور نگاہ سب پر ڈالی۔۔۔
اور للکارا ۔۔۔
کل پیپر ہے اور یہاں یہ ٹھٹے چل رہے ہیں۔۔۔
اس بات پر ایک ناگوار سی خاموشی طاری ہو گئی۔۔۔
پھر کسی پکارنے والے نے پکارا۔۔۔
پڑھ لیا ہے۔۔۔
آہ یہ کہنا ہی غضب ہو گیا۔۔۔
کہ۔۔۔
ٹھاہ کر کے سوال داغا گیا۔۔۔
What is philadelphia chromosome?
پہلے خاموشی تھی تو اب گہری خاموشی۔۔۔۔
سب چپ کہ یہ کون سا یونیورسٹی کوئسچن ہے؟؟؟
ٹکر ٹکر ایک دوجے کو دیکھیں۔۔۔۔
اس پر بابا جی نے اپنی معلومات جھاڑی پورے ساڑھے پچپن سیکنڈ۔۔۔
اور ایک فخر اور استہزایہ چہرے کا مکسچر بنا کر سب کو فرداً فرداً گھوری کرائی۔۔۔۔
ادھر ہم سب کی سٹی گم۔۔۔۔۔
میں نے تو بستر کے نیچے بھی دیکھ لیا،پھر بھی نہیں ملی۔۔
ایسے موقعوں پر پتہ نہیں کیوں گم جاتی ہے۔۔۔
خیر۔۔۔
کمرے میں قبرستان کا سناٹا چھا گیا۔۔۔
کہیں دور سے الو کے ہو ہووووو کر کے ہوکنے کی آواز آئی (میرے ان ثواب دار کانوں نے خود سنی)۔۔۔
تمام سقراط اور بقراط سہمے سہمے۔۔
سمٹے سمٹے سے نظر آئے۔۔۔
سب کے چہرے سپید پڑ گئے۔۔۔
اپنی کم علمی کا ناگ ڈسنے لگا۔۔۔۔
دل ڈوب سے گئے۔۔۔۔
میں نے موقع کی مناسبت سے ایک کیسٹ ٹیپ ریکارڈر میں ڈالی۔۔۔۔
چرررررررررررررر کر کے ریوائنڈ کی۔۔۔۔۔
چررررررررر مزید ریوائنڈ کی۔۔۔۔۔۔
اور ایک نہایت پرانا، دکھی، سڑا ہوا سا،منحوس سا گانا لگا دیا۔۔۔
سب نے خشمگیں نگاہوں سے میری سرزنش کی۔۔۔
کہ اچانک ایک کونے سے شرجیل کی آواز بلند ہوئی جیسے مولانا صاحب جمعہ کا خطبہ دے رہے ہوں۔۔۔
کھنکھار کر گلا صاف کیا اور اپنی بات وہاں سے شروع کی جہاں سے بابا جی نے ختم کی تھی۔۔۔
کہ اصل میں یہ کروموسوم دو طرح کے ہوتے ہیں۔۔۔۔
اور دے دنا دن۔۔
تین منٹ اور پانچ سیکنڈ تک مفصل بیان ہوا۔۔۔
جیسے جیسے وہ بیان کر رہا تھا کمرے میں موجود سب کے چہرے کِھلےجا رہے تھا۔۔۔
اور لون کا مرجھاتا جا رہا تھا۔۔۔
جیسے ہی بیان مکمل ہوا۔۔۔
کمرا کیا پورا ہاسٹل ایک فلک شگاف قہقہہ سے گونج اٹھا۔۔۔۔
اور لون دم دبا کر الٹے پاؤں بھاگ نکلا۔۔۔۔
ویسے بعد میں ہم سب نے سوچا کہ شرجیل نے تو ہماری جگہ پرچا نہیں دینا۔۔۔
ہم کیوں خوش تھے؟
تو جی یہ تھے شرجیل عرف جِیلا ۔۔۔۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ ایک پون چلی۔۔۔
ولایت آنے کی۔۔۔
پہلے تو شرجیل نے اس کو نگاہ التفات نا بخشی۔۔۔
لیکن جب ایک ایک کر کے سب یار بیلی عازم سفر ہوئے تو وہ بھی لشتم پشتم پیچھے پیچھے آن پہنچے۔۔۔۔انگلینڈ پہنچ کر ہم سب جو فہرست جیب سے نکالتے اس میں نمبر ایک حلال کھانا (وافر ہر جگہ اس لئے کوئی مسئلہ نہیں)۔۔۔
بلکہ اس سے یاد آیا۔۔
ہر جگہ جا کر? is this Halal پوچھنے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ جب پہلی دفعہ پاکستان واپس آ رہے تھے تو میں اور عمر راستے میں عمرہ کرنے رک گئے۔۔۔۔
طواف کیا۔۔۔
عمرہ کیا۔۔
بھوک لگی تو کعبہ کے سامنے McDonald چلے گئے۔۔۔
قیمت تو پوچھی نہیں البتہ پہلا سوال منہ بنگا کر کے شد دیسی انگریزی میں ?is this Halal تھا۔۔۔۔
وہ بھائی ہماری شکل دیکھے یہ پاگل کہاں سے آگئے۔۔۔
شکر ہے فیصل آبادیہ نہیں تھا۔۔۔
ورنہ بڑی جگتیں مارتا۔۔۔۔
نمبر دو سر چھپانے کا ٹھکانہ(عمر کا ڈربہ لہذا کوئی مسئلہ نہیں)۔۔
ممبر تین روزی روٹی کی تلاش ( بڑا وڈا مسئلہ ) اور
اس کے بعد ایک عدد سواری لسٹ میں ٹاپ پر ہوتی تھیں۔۔۔۔
گاڑی کا تو جی یہ رہا کہ ۔۔۔
مہنگی سے مہنگی۔۔۔
یا سستی سے سستی دونوں ہی دستیاب۔۔۔
ہر قسم کی گاڑی۔۔
جیسے بظاہر منحوس قسم کی خوفناک شکل والی ڈب کھڑبہ گاڑی،
شکل ایسی کہ بندہ مفت بھی نا لے۔۔۔
بلکہ کوئی پیسے دے تو بھی نالے۔۔۔۔
بلکہ طعنے کھا لے پھر بھی نا لے۔۔۔۔
بلکہ لِتر کھا لے پھر نا لے۔۔۔
بلکہ جیل چلا جائے پھر بھی نا لے۔۔۔۔
بلکہ خود کشی کر لے پھر بھی نا لے۔۔۔
اور دوسری طرف۔۔
نئی نکور لشکارے مارتی۔۔
جس پر نگاہ تو نہ ٹھرے پر دیکھنے سے دل نا بھرے۔۔۔
جس کیلئے بندے گرہ بیچ دے۔۔۔(کسی اور کا)۔۔۔
جس کیلئے آسمان سے تارے توڑ لائے۔۔۔
جس کیلئے پولیس والے کو چنڈ کرانے کی شرط پوری کر دے۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
شرجیل (جیلا ) نے فیصلہ کیا کہ وہ قربانی دیں گے اور اول الذکر کو اپنا کر ثواب دارین حاصل کریں گے۔۔۔
عمر شریف کیا فرما گئے اس بارے میں
پڑھئے اور سر دھنیے (جس کا مرضی)۔۔۔
لڑکیوں سے معذرت۔۔۔لڑکیاں اگلی سات لائنیں نا پڑھیں۔۔۔
عمر شریف اپنے شو میں ایک دفعہ ذکر کر رہا تھا۔۔۔
کہ۔۔۔
گوریاں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں۔۔۔
ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت۔۔۔
ہاں کوئی کوئی بہت بدصورت بھی ہوتی ہے۔۔۔
اور ہمارے پاکستانی بڑی جدوجہد کے بعد۔۔۔
اس بدصورت کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور اس سے شادی کر لیتے ہیں۔۔۔
یہاں سےلڑکیاں پڑھ سکتی ہیں۔۔۔۔
تو جی جیلے نے بھی کچھ ایسے ہی کیا۔۔۔
بس گوری کی جگہ گاڑی تھی۔۔۔
شکل ایسی کے مس ہیبت ناک میں اول آئے۔۔۔
چلنے میں انتہائی ناقابل اعتبار۔۔
اپنی مرضی کی مالک۔۔۔
بعض دفعہ تو پگڑی اتار کر قدموں رکھنی پڑے اور منت ترلا کریں تو چلے۔۔
اور جب چلے تو ارد گرد ساری ٹریفک رک جائے۔۔
ادب سے نہیں۔۔۔
ڈر کر۔۔۔
سائلنسر مسلسل بین کی آوازیں نکالے۔۔۔
الغرض کیا چچا چھکن کی گاڑی ہو گی۔۔
جو یہ تھی۔۔۔
یا ہو۔۔۔۔
یااااااااا ہوووووو۔۔۔۔ ترنم سے پڑھا جائے، گنگنا کر۔۔۔
جیلا نکلا۔۔۔۔۔
گڈی لے کے۔۔۔
او ر ستے پر….
او سڑک میں۔۔۔۔
ایک پولیس وااااااالا آااااایا۔۔۔
جیلا اوتھے گڈی چھوڑ آیا۔۔۔
رب جانے۔۔۔۔
کب گزرا۔۔۔۔
مانچسٹر۔۔۔۔
کب پولیس سٹیشن آیا ۔۔۔۔۔
جیلا اوتھے گڈی چھوڑ آیا۔۔۔۔
(سسکیاں لیتے ہوئے پڑھا جائے)…… 😫😫😫😫😫😫😫😫😫😫
جیلا اوتھے گڈی چھوڑ آیا۔۔۔۔۔
ہچکیاں لے لے کر پڑھا جائے۔۔۔
جی ۔۔لا۔۔۔۔او۔۔۔۔تھے۔۔۔گڈ۔۔۔ی۔۔۔ ،😫😫😫😫😫😫😫😫😫😫😫
تو تھوڑا سا فلیش بیک کرتے ہیں۔۔۔۔
جیلے نے گاڑی خریدی مبلغ ساڑھے تین سو پاؤنڈ کی۔۔۔
اور خوشی خوشی ڈرائیونگ پر نکلا۔۔۔
یہ سوچ کر کہ اتنی سستی گاڑی۔۔۔
اس نے تو مالک کو لوٹ ہی لیا۔۔۔
اب یہ تو رب جانے کہ کس نے کسے لوٹ لیا۔۔۔۔
خیر گاڑی اپنے نئے مالک کے ہاتھوں میں شرابی کی طرح جھومتی جھامتی جا رہی تھی۔۔۔۔
پورے ایک گھنٹہ گاڑی روانی کے ساتھ چلانے پر پورے ڈیڑھ کلومیٹر کا لمبا سا فاصلہ بھی طے کر لیا۔۔۔۔
دونوں ہی بہت مسرور تھے۔۔۔
جیلا اور گاڑی۔۔۔
مست مست سے مست ہوا کے سنگ اڑتے جا رہے تھے۔۔۔۔
کہ اچانک۔۔۔
پیچھے سے پولیس کی گاڑی نے آ کر ٹاں ٹاں ٹاں لگا دی۔۔۔
اور جیلے اور گاڑی کے مست خواب توڑ دئے۔۔۔
پولیس والے نے کیوں روکا تھا؟
یہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔۔
شاید گاڑی کی ہیبت دیکھ کر۔۔
یاں گاڑی کی چال دیکھ کر۔۔۔
یاں پھر جیلا ہی مشکوک نظر آرہا تھا۔۔۔
خیر اب ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔۔۔
میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ گاڑی کے پرانے مالک نے پولیس کو فون کر کے شکایت لگائی تھی کہ سڑک پر ایک نہایت خطرناک سواری آ گئی ہے جس پر پولیس آن دھمکی تھی۔۔۔۔
بہرحال۔۔
نتیجہ۔۔۔
جیلا اپنی لاڈو کے ساتھ تھانے میں۔۔۔
پتہ نہیں کتنے حسین خواب بنے تھے جو فی الحال چکنا چور ہو گئے تھے۔۔۔۔
نہایت ہی ادب سے خونخوار انداز میں شرجیل سے لائسنس مانگا گیا۔۔۔۔
اس پر
جیلا پکا پاکستانی۔۔۔
اور پاکستانی لائسنس بنوا لیں۔۔۔
استغفرُللہ ۔۔۔۔
لہذا جواب تو سمجھ میں آ گیا ہو گا۔۔۔
پر پولیس والے کو سمجھ نا آیا۔۔۔۔
پھر
گاڑی کی انشورنس کے کاغذ طلب کئے کہ اس کے بغیر گاڑی سڑک پر لانا جرم ہے۔۔۔
وہ کیا ہے، جانے شرجیل کی بلا۔۔۔
وہ تو ان باتوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔۔۔
بڑی بحث ہوئی۔۔۔ قریب تھا کہ شرجیل اور گاڑی دونوں تھانے کے مہمان خصوصی بن جاتے۔۔۔۔
اچانک شرجیل کے سپر دماغ نے اسے یاد دلایا کہ وہ فون آ فرینڈ بھی کر سکتا ہے۔۔۔
فوراً سے بیشتر اس نے اپنے جگر کو فون لگایا۔۔۔
اس نے معذرت کر لی کہ وہ سونے میں مصروف تھا۔۔۔
البتہ اس نے اپنے جگر یعنی عمر کا نمبر دے دیا۔۔۔
عمر سے بات ہوئی ۔۔۔۔
پہلے تو یہ بتانے میں جیلے کا بیلنس مک گیا کہ شرجیل یعنی کہ وہ،
عمر کا ہم جماعت ہے
His name is Sharjeel and he is not a terrorist.
پھر عمر کا ترلا ہوا کہ وہ اپنا لائسنس لے کر پہنچے۔۔۔۔
عمر ہوا کے گھوڑے پر سوار وہاں آن موجود ہوا۔۔۔
اب قارعین یہاں یہ یاد رہے کہ عمر ہڈیوں کا پہلوان ہے یعنی کہ ڈاکٹر۔۔۔
سیدھے بولے تو۔۔۔۔
بھئی یہ لوگ اتنے ہی ڈاکٹر ہوتے ہیں جتنا منا بھائی ایم بی بی ایس میں منا بھائی۔۔۔
ایک سو دو سال کی اماں اگر ٹانگ تڑوا کر آئے تو ٹانگ تو جوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔
پر اماں سورگ باش ہو جاتی ہے۔۔۔
یعنی لواحقین کو پنجرہ دے دیتے ہیں پر روح نکال لیتے ہیں۔۔۔
اور اوپر سے کہتے ہیں دیکھیں کتنی عمدہ ٹانگ جوڑی۔۔۔
روح کا کیا ہے وہ تو اللہ کی امانت ہے جب چاہے لے لے۔۔۔۔
یہ بتا نا اس لئے تھا کہ جب تھانے میں چِھلڑ نے لائسنس مانگا۔۔۔
تو عمر نے کچھ ایسا ہی کیا۔۔۔
کارڈ دکھا دیا پر اصلی کاغذ ندار۔۔۔
تھا تو پاکستانی ۔۔۔۔
لائسنس کا تکلف کیا کرنا۔۔۔
شرجیل نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔۔۔
عمر نے بھی۔۔۔
شرجیل کا ماتھا پیٹ لیا۔۔۔
ہائے اب کیا داستان سنائیں
ہوا بس کچھ یوں کہ شرجیل نے گاڑی چھوڑی تھانے
اور خود پہلے تو لیا لائسنس پھر کرائی انشورنس
اور پھر گاڑی تھانے لینے پہنچا کوئی مہینے کے بعد۔۔۔۔
تو آگے سے چودہ طبق روشن ہو گئے۔۔۔
پولیس نے گاڑی تھانے میں کھڑی کرنے کا کرایہ ہی ہزار پاؤنڈ لے لیا۔۔۔
یعنی گاڑی کی قیمت سے تین گنا زیادہ۔۔۔
اور کیا بتاوں۔۔۔
کہ اس کے بعد جب لاڈو کو سٹارٹ کرنا چاہا تو اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔۔۔
ناراض تھی کہ اتنے دن پوچھا نہیں۔۔۔۔
پھر آیا مکینک۔۔
اس نے دو سو پاؤنڈ اس بات کے لے لئے کہ یہ گاڑی تو اب ختم ہے۔۔۔۔۔
اگر چلنے کے قابل بنانی ہے تو پانچ ہزار پاؤنڈ لگیں گے۔۔۔۔
اب کیا کریں۔۔۔
دل پر جبر کر کے یہ فیصلہ ہوا کہ لاڈو کا انتم سنکسار کر دیا جائے۔۔۔۔
لو جی یہاں شرجیل کو نانی یاد آ گئی جب گاڑی پھنکوانے پر مزید دو سو پاؤنڈ لگے۔۔۔
یعنی کھایا نا پیا۔۔۔
گلاس توڑے بارہ آنے۔۔۔
دو میل کی سیر شرجیل کو دو ہزار میں پڑ گئی۔۔۔
دنیا کی سب سے مہنگی سیر۔۔۔۔
واہ رے مولا۔۔۔
منو بھائی موٹر چلے پم پم پم